دلت اور مزدوروں کے حقوق کے کارکن شیو کمارکو ہریانہ پولیس نے گزشتہ سال مزدوروں کے حق میں ایک احتجاجی مظاہرہ کرنے پر حراست میں لے لیا تھا۔ ان کے والد کی رٹ پٹیشن پر پنجاب اینڈ ہریانہ ہائی کورٹ نے معاملے کی جوڈیشل انکوائری کروائی تھی، جس میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ تشدد کے واقعات کو انجام دینے میں اس وقت کے جوڈیشل مجسٹریٹ، سونی پت سول اسپتال کے ڈاکٹر اور جیل حکام نے ہریانہ پولیس کے ساتھ ملی بھگت کی تھی۔
نئی دہلی: دلت اور مزدوروں کے حقوق کے کارکن شیو کمار کی غیر قانونی حراست اور حراست میں تشدد کے الزامات کی جانچ کے لیے پنجاب اینڈ ہریانہ ہائی کورٹ کی نگرانی میں کی گئی ایک انکوائری رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس وقت کے جوڈیشل مجسٹریٹ ونے کاکرن، سونی پت سول اسپتال کے ڈاکٹراور جیل اہلکار اپنے فرائض کی انجام دہی میں ناکام رہے اور ہریانہ پولیس کے ساتھ ملی بھگت کی تھی۔
کمار کو گزشتہ سال کنڈلی انڈسٹریل ایسوسی ایشن کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کرنے کی وجہ سے گرفتار کیا گیاتھا، وہ مزدوروں کے لیے اجرت کی عدم ادائیگی اور ان پر کیے جانے والے مظالم کے خلاف آواز اٹھارہے تھے۔ اسی معاملے میں کارکن نودیپ کور کو بھی گرفتار کیا گیا تھا۔
اس سال کے شروع میں چندی گڑھ کے گورنمنٹ میڈیکل کالج اینڈ ہسپتال (جی ایم سی ایچ) کی طرف سے پنجاب اینڈ ہریانہ ہائی کورٹ میں جمع کرائی گئی ایک تفصیلی میڈیکل رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ شیو کمار کے ساتھ پولیس نے وحشیانہ سلوک کیا تھا۔ لیکن یہ پہلا موقع ہے کہ عدالتی انکوائری میں ان نتائج کو ثبوتوں کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔
بتادیں کہ 16 مارچ 2021 کو پنجاب اینڈ ہریانہ ہائی کورٹ نے اس وقت فرید آباد کے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کو مذکورہ بالاتحقیقات کرنے کی ہدایت دی تھی۔ تحقیقات کی تفصیلی رپورٹ اسی مہینے جاری کی گئی اور 20 دسمبر 2022 کو اسے عام کیا گیا۔
عدالتی انکوائری کے دوران 15 گواہوں کے بیانات قلمبند کیے گئے۔ اس میں کیس کے تفتیشی افسر، جوڈیشل مجسٹریٹ ونے کاکرن، جیل میڈیکل افسر، متاثرہ شیو کمار، رٹ پٹیشن دائر کرنے والے راج بیر سنگھ (کمار کے والد) اور کمار کے ساتھ کام کرنے والی ساتھی کارکن نودیپ کور شامل ہیں۔
کور کے اہل خانہ نے الزام لگایا ہے کہ اس وقت پولیس حراست میں کور کوبھی تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
ہائی کورٹ کے سامنے رکھی گئی تحقیقات نے جی ایم سی ایچ کی طرف سے کئے گئے آزاد طبی معائنے کی توثیق کی اور اس میں کہا گیا کہ رپورٹ کے نتائج گواہ کے بیان کی تصدیق کرتے ہیں اور سچ ہیں۔
انکوائری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سونی پت کے سول اسپتال کے ڈاکٹر’پولیس افسران کے اشارے پر ناچ رہے تھے’ اور اپنے فرائض انجام دینے میں ناکام رہے۔
تحقیقات میں کہا گیا ہے، ‘سونی پت سول اسپتال کے ڈاکٹروں کو 24/01/2021 سے 02/02/2021 تک بار بار معائنے کے دوران شیو کمار کے جسم کے کسی بھی حصے پر کوئی زخم نہیں ملا۔ لیکن 20/02/2021 کو چندی گڑھ کے جی ایم سی ایچ کے طبی معائنے کے بعد جب 25/02/2021 کو سول ہسپتال نے اس کا دوبارہ معائنہ کیا تو اس بار اپنی رپورٹ کو جی ایم سی ایچ کے مطابق بنانے کے لیے ان کے جسم پر دو فریکچر بتائے گئے۔ ‘
جانچ میں ایس آئی شمشیر سنگھ اور انسپکٹر رویندر کو ‘شیو کمار کو اذیت دینے کا قصوروار’ قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ حراست میں ان پر ہونے والے تشدد کے لیے وہ ‘پوری طرح سے ذمہ دار’ ہیں۔
تحقیقات میں پایا گیا کہ، ایس آئی شمشیر سنگھ، جو کنڈلی پولیس اسٹیشن کے ایڈیشنل اسٹیشن انچارج (ایس ایچ او) اور تینوں معاملات میں تفتیشی افسر تھے اور جن کے پاس شیو کمار کی پولیس ریمانڈ تھی، ان پر ہونے والے تشدد اور اذیت کے لیے ذمہ دار ہیں۔
تحقیقات میں پولیس اور میڈیکل افسران کی ناکامی کے علاوہ، جوڈیشل مجسٹریٹ ونے کاکرن کی طرف سے بھی فرائض کی انجام دہی میں ناکامی کی بات کہی گئی ہے۔
شیو کمار کے مطابق، انہیں جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے پیش نہیں کیا گیا، بلکہ پولیس کی گاڑی میں باہر بٹھا دیا گیا۔ تاہم، جوڈیشل مجسٹریٹ نے ریکارڈ میں کہا ہے کہ انہوں نے کمار سے ملاقات کی تھی اور کمار نے پولیس کی طرف سے کسی بھی طرح کی جسمانی ہراسانی کی شکایت نہیں کی تھی۔
جانچ میں کہا گیا ہے، ایسا لگتا ہے کہ یا تو شیو کمار کو مجسٹریٹ کے سامنے جسمانی طور پر پیش نہیں کیا گیا تھا اور باہر پولیس گاڑی میں بٹھایا گیا تھا یا اگر پیش کیا گیاتھا، تو وہ پولیس کی طرف سے دی گئی دھمکیوں کی وجہ سے مجسٹریٹ کے سامنے کچھ بھی بولنے کی پوزیشن میں نہیں تھے، کیونکہ انہیں 16/01/2021 سے لے کرعدالت میں پیش کیے جانے تک تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
یہ بھی کہا گیا ہے، ‘یہاں تک کہ ونے کاکرن، جو اس وقت جے ایم آئی سی (سونی پت) کے عہدے پر تعینات تھے، نے بھی اپنے فرائض انجام نہیں دیے، جو کہ ان کی ذمہ داری تھی۔’
سیشن جج کو دیے گئے شیو کمار کےبیانات میں تشدد کی چونکا دینے والی تفصیلات ہیں۔
شیو کمار کے مطابق، پولیس ریمانڈ کے دوران انہیں ‘چمار’ جیسی گالیاں دیتے ہوئے تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور بیت الخلا صاف کرنے کو کہا گیا۔ اس کے علاوہ، ہریانہ پولیس کے افسران نے ان پرتھوکا، انہیں کھولتے ہوئے پانی میں ہاتھ –پیرڈالنے کو کہا گیا اور ان کے چہرے پر ہائی پریشر پائپ لائن سے پانی مارا گیا۔
تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ،ان کے اوپر ایک کرسی رکھی گئی تھی جس پر سی آئی اے (ہریانہ کی کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی) کے اے ایس آئی جئے بھگوان بیٹھے تھے، جنہوں نے انہیں بالوں سے پکڑا اور سی آئی اے کے دو دیگر افراد نے ان کی دونوں ٹانگیں پکڑ لیں اور مخالف سمتوں میں کھینچنے لگے۔ انسپکٹر روی کمار اور مندیپ ان کی رانوں پر کھڑے ہوگئے اور وہ بھی مخالف سمت میں دباؤ ڈال رہے تھے۔
کمار کے بیان میں کہا گیا ہے کہ جب ان کا خون بہہ رہا تھا، تب بھی ان کی مدد نہیں کی گئی، بلکہ ان سے کاریڈورمیں پریڈ کرائی گئی ۔
شیو کمار نے آن ریکارڈ یہ بھی کہا ہے کہ 28 جنوری سے 31 جنوری 2021 تک انہیں ایس آئی شمشیر سنگھ دو دیگر پولیس والوں کے ساتھ پانی پت اور ہری دوار لے گئے تھے۔ دونوں جگہوں پر کمار کو ایک لاج میں میں ہتھکڑی لگا کر بستر سے باندھ دیا گیا اور پولیس والے شراب پی رہے تھے۔
اس معاملے میں یہ پہلی عدالتی انکوائری رپورٹ ہے، جوپولیس حراست میں شیو کمار کو دیے گئے تشدد میں مجسٹریٹ، ڈاکٹروں اور انسپکٹرز کے ملوث ہونے کی بات کو ثابت کرتی ہے۔
(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)
Categories: حقوق انسانی, خبریں