خبریں

کالے دھن سے نمٹنے کے لیے نوٹ بندی کی تجویز کو آر بی آئی نے مارچ 2016 میں خارج کر دیا تھا

گزشتہ ماہ مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ میں ایک حلف نامہ داخل کرتے ہوئے کہا تھا کہ نوٹ بندی کا فیصلہ آر بی آئی کے مرکزی بورڈ کی خصوصی سفارش پر لیا گیا تھا۔ تاہم، آر ٹی آئی کے ذریعے سامنے آنے والے نتائج مرکزی حکومت کی طرف سے عدالت عظمیٰ میں پیش کیے گئے اس حلف نامے کے برعکس  ہیں۔

علامتی تصویر، فوٹو: رائٹرس

علامتی تصویر، فوٹو: رائٹرس

نئی دہلی: 8 نومبر 2016 کو نریندر مودی حکومت کے نوٹ بندی کے فیصلے سے چند ماہ قبل ریزرو بینک آف انڈیا (آر بی آئی) نے اس قدم کی سختی سے مخالفت کی تھی۔

بتا دیں کہ اس دن وزیر اعظم نریندر مودی نے 500 اور 1000 کے نوٹوں کو چلن سے باہر کرنے  کا اعلان کیا تھا۔

غورطلب ہے کہ 15 مارچ 2016 کو وزیر اعظم، وزیر خزانہ اور آر بی آئی کے گورنر کو لکھے ایک خط میں کرناٹک کی انسداد بدعنوانی کمیٹی نے کالے دھن کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے 500 اور 1000 روپے کے بینک نوٹوں پر پابندی لگانے کا مشورہ دیا تھا۔

جس کے جواب میں آر بی آئی نے کہا تھا، ‘500 اور 1000 روپے کے نوٹ چلن میں موجود نوٹوں کی قیمت کا 85 فیصد ہیں اور عوام کی نقدی کی ضروریات کو پورا کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اس کے پیش نظر فی الحال 500 اور 1000 روپے کے اعلیٰ مالیت کے بینک نوٹوں کو واپس لیناعملی  نہیں ہوگا۔

مذکورہ خط 12 جنوری 2016 کو اینٹی لینڈ گریبنگ ایکشن کمیٹی آف بنگلورو نے لکھا تھا۔

وزیر اعظم نریندر مودی کو لکھے گئے اس خط میں کمیٹی نے ‘ہندوستان میں کالے دھن کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات’ کے بارے میں لکھا تھا۔ اس نے خط کی ایک کاپی اس وقت کے وزیر خزانہ ارون جیٹلی اور آر بی آئی کے گورنر رگھورام راجن کو بھی بھیجی تھی۔

خط میں سابق ایم ایل اے اور کمیٹی کے کوآرڈینیٹر اے کے رام سوامی نے لکھا تھا کہ کس طرح ‘کالا دھن  معاشی اور سماجی مسئلہ  دونوں ہے’۔

رام سوامی نے 2006 میں کرناٹک سرکار کی طرف سے قائم کی گئی مشترکہ قانون ساز کمیٹی کی سربراہی بھی کی تھی جو بنگلورو میں سرکاری اراضی پر ہونے والے تجاوزات کی چھان بین اور رپورٹ کرنے کے لیے تھی۔

انہوں نے خط میں اس بات پر بھی زور دیا  تھاکہ ریئل اسٹیٹ اور کالے دھن کے درمیان گہرا تعلق ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ کالے دھن کے چلن کو روکنے اور اسے مزید بڑھنے سے روکنے کی ضرورت ہے۔ اس سمت میں انہوں نے 1000 اور 500 روپے کے نوٹوں کو بند کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا، تجوریوں  میں رکھا ہوا کالا دھن ایک ہی جھٹکے میں بیکار ہو جائے گا۔

وزیراعظم، ان کے دفتر اور وزیر خزانہ نے خط کا کوئی جواب نہیں دیا تھا۔ تاہم، آر بی آئی نے 15 مارچ 2016 کو ایک خط میں رام سوامی کو جواب دیا۔

جنرل منیجر ای بیگ کی طرف سے بھیجے گئے خط میں کہا گیا تھاکہ ‘500 اور 1000 روپے کے نوٹ چلن میں موجود نوٹوں کی مالیت کا 85 فیصد بنتے ہیں اور عوام کی نقدی کی ضروریات کو پورا کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اس کے پیش نظر، فی الحال 500 اور 1000 روپے کے اعلیٰ مالیت کے بینک نوٹوں کو واپس لینا عملی نہیں ہوگا۔

اس میں مزید کہا گیا ہے، اس کے علاوہ جیسا کہ آر بی آئی ایکٹ 1934 کی وفعہ 24 میں بیان کیا گیا ہے، بینک نوٹوں کی مالیت/ انہیں  جاری  نہ کرنے/ بند کرنے سے متعلق تمام فیصلے مرکزی حکومت کی منظوری سے لیے جاتے ہیں۔

کمیٹی اور وزیر اعظم/وزیر خزانہ/آر بی آئی کے درمیان بات چیت کی تفصیلات رام سوامی کے ذریعے اس وقت  منظر عام پر لائی گئی تھی جب انہوں نے آر ٹی آئی دائر ہونے کے بعد عرضی گزار کے ساتھ اسے شیئر کیا تھا۔

آر ٹی آئی کارکن وینکٹیش نایک نے کامن ویلتھ ہیومن رائٹس انیشیٹو کے لیے کام کرتے ہوئے نوٹ بندی کے عمل اور اس کے نتائج کو بڑے پیمانے پر  آرٹی آئی کے ذریعے آگے بڑھایا تھا۔ انہوں نے کہا کہ آر بی آئی کے ڈائریکٹروں نے حکومت کے اس موقف کے برعکس رائے دی تھی کہ زیادہ تر کالا دھن نقدی کی شکل میں نہیں ہے بلکہ سونے یا غیر منقولہ جائیداد جیسے اثاثوں کی شکل میں  رکھا جاتاہے۔

نایک کی طرف سے دائر کی گئی ایک آر ٹی آئی کے جواب میں آر بی آئی نے کہا تھا کہ وہ 1000 اور 500 روپے کے نوٹوں کو بند کرنے کے فیصلے کی عملیت ، لاگت – فوائد کے تجزیہ یا اثرات کا تجزیہ کرنے کے لیے کیے گئے کسی بھی مطالعہ سے واقف نہیں ہے۔

وہیں معلوم ہو کہ جب رگھورام راجن آر بی آئی کے گورنر  ہوا کرتےتھے، تب مرکزی بینک نے مرکزی حکومت کے نوٹ بندی کے اقدام کو خارج   کر دیا تھا۔ تاہم،راجن کے 4 ستمبر 2016 کو اپنے عہدے سے استعفیٰ دینے کے بعد حکومت نے نوٹ بندی  کی کارروائی کو آگے بڑھایا تھا۔

تاہم گزشتہ ماہ مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ میں ایک حلف نامہ داخل کرتے ہوئے کہا تھا کہ نوٹوں کو بند  کرنے کا فیصلہ آر بی آئی کے مرکزی بورڈ کی خصوصی سفارش پر لیا گیا تھا۔ اس میں مزید کہا گیا تھا کہ آر بی آئی نے سفارش کے نفاذ کے لیے ایک ڈرافٹ اسکیم بھی تجویز کی تھی۔

سپریم کورٹ 58 عرضیوں کے ایک  بیچ کی سماعت کر رہی تھی،  جنہوں نے حکومت کے نوٹ بندی کے اقدام کو چیلنج کیا تھا۔

حلف نامے میں کہا گیا ہے، ‘آر بی آئی نے سفارش کے نفاذ کے لیے ایک ڈرافٹ پلان بھی تجویز کیا تھا۔ مرکزی حکومت کی طرف سے سفارشات اور ڈرافٹ اسکیم پر غور کیا گیا تھا اور اس کی بنیاد پر گزٹ آف انڈیا میں نوٹیفکیشن شائع کیا گیاتھا جس میں اعلان کیا گیا  تھاکہ مخصوص بینک نوٹوں کو قانونی ٹینڈر کے طور پر ختم کر دیا جائے گا۔’

وہیں، دی وائر نے وینکٹیش نایک کے حوالے سے ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ آر بی آئی کے سینٹرل بورڈ کی میٹنگ کے منٹس کی تفصیلات بتاتی ہیں کہ بورڈ کو اس بارے میں علم نہیں تھا۔ وزیر اعظم کے نوٹ بندی کے فیصلے کا اعلان کرنے سے چھ گھنٹے سے بھی کم وقت پہلے اس موضوع پر ڈپٹی گورنر کی ریلیز کوبورڈ کے سامنے رکھا گیا تھا۔

اس نے یہ بھی کہا تھا، بورڈ کو یقین دلایا گیا تھا کہ یہ معاملہ گزشتہ چھ ماہ سے مرکزی حکومت اور آر بی آئی کے درمیان زیر بحث رہا ہے، جس کے دوران ان میں سے زیادہ تر مسائل پر غور کیا گیا ہے۔ بیان کردہ مقاصد کے علاوہ، مجوزہ اقدام مالی شمولیت کے عمل کو آگے بڑھانے اور ادائیگی کے الکٹرانک طریقوں کے استعمال کی حوصلہ افزائی کرنے کا ایک بہت بڑا موقع بھی پیش کرتا ہے، کیونکہ لوگ نقد کے استعمال پر بینک کھاتوں اور ادائیگی کے الکٹرانک وسائل  کے فوائد کو دیکھتے ہیں۔ ‘

لہذا، میٹنگ کے منٹس میں واضح طور پر کہا گیا تھا کہ بورڈ کو صرف ‘یقین دہانی’ کرائی گئی تھی کہ یہ معاملہ مرکزی حکومت اور آر بی آئی کے درمیان بات چیت کا موضوع تھا۔

حکومت نے سپریم کورٹ کو یہ بھی بتایا  تھاکہ، نوٹ بندی کا فیصلہ اپنے آپ میں ایک مؤثر قدم تھا اور یہ جعلی پیسے، دہشت گردی کی مالی معاونت، کالے دھن اور ٹیکس چوری کے خطرے سے نمٹنے کے لیے ایک بڑی حکمت عملی کا حصہ بھی تھا، لیکن یہ صرف یہیں تک محدود نہیں تھا۔ یہ تبدیلی معاشی پالیسی اقدامات کے سلسلے میں ایک اہم قدم تھا۔

یہ نوٹ کرنا دلچسپ ہے کہ بنگلورو لینڈ گریبنگ ایکشن کمیٹی نے 12 جنوری 2016 کو وزیر اعظم کو بھیجے گئے ایک خط میں تقریبا اسی طرح کے خدشات کا اظہار کیا تھا۔

کمیٹی نے وزیر اعظم نریندر مودی کو ‘ہندوستان میں کالے دھن کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات’ کے بارے میں لکھا تھا۔ اس نے اس خط کی کاپی اس وقت کے وزیر خزانہ ارون جیٹلی اور آر بی آئی کے گورنر رگھورام راجن کو بھی بھیجی تھی۔

خط میں سابق ایم ایل اے اور کمیٹی کے کوآرڈینیٹر اے کے رام سوامی نے لکھا کہ کس طرح کالا دھن معاشی اور سماجی مسئلہ  دونوں ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ ہندوستان میں چلن میں موجود کالے دھن کے بارے میں ‘خوفناک خاموشی’ ہے۔

اس سے پہلے، وینکٹیش نایک کی طرف سے دائر کی گئی ایک آر ٹی آئی کے جواب میں، آر بی آئی نے کہا تھا کہ وہ 500 اور 1000 روپے کے نوٹوں کو بند کرنے کے فیصلے کے امکانات، لاگت اور فوائد کے تجزیہ یا اثرات کا تجزیہ کرنے کے لیے کیے گئے کسی بھی  مطالعہ سے واقف نہیں تھا۔

قابل ذکر ہے کہ 15 مارچ،2019 کو، نایک نے آر بی آئی  کےساتھ  ایک آرٹی آ ئی بھی دائر کی تھی، جس میں 500 اور 1000 روپے کی مالیت کے بینک نوٹوں کی قانونی ٹینڈر نوعیت کو ختم کرنے کے ہندوستانی حکومت کے فیصلے سے قبل آربی آئی کے ذریعے کیے گئے یا کمیشن کیے گئے یا فراہم کی گئیں کسی بھی مطالعہ کی فوٹو کاپی مانگی تھی۔

ان تمام سوالات کے جواب میں آر بی آئی کے سینٹرل پبلک انفارمیشن آفیسر نے 17 جون 2019 کو انہیں  یہ کہتے ہوئے جواب دیا  تھاکہ ‘آر بی آئی کے پاس ایسی کوئی معلومات دستیاب نہیں ہے’۔

اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔