یوم جمہوریہ پر خاص: ایک ایسے وقت میں جب آئین کی روح اور اس کے ‘بنیادی ڈھانچے’ کے تحفظ پر بحث چھڑی ہوئی ہے، یہ ضروری ہے کہ اس کی بنیادی روح اور اس کے مقصد کو عام لوگوں تک پہنچایا جائے کیونکہ جب تک ‘جمہور’ ہمارے آئین کو نہیں سمجھے گا، ہمارا جمہوری نظام صرف ایک کھلونا بن کر رہ جائے گا۔
ہر سال کی طرح اس بار بھی یوم جمہوریہ بڑے جوش و خروش سے منایا جا رہا ہے اور منایا بھی جانا چاہیے۔لیکن جشن کے اس ماحول میں جو بات ہم بھول جاتے ہیں یا جس پر زیادہ بات نہیں ہو پاتی یا پھر یوم جمہوریہ کے آس پاس ہی کچھ بات ممکن ہو پاتی ہے وہ یہ ہے کہ یوم جمہوریہ کیوں منایا جاتا ہے؟
اس کا سیدھا سادہ جواب تویہ ہے کہ یوم جمہوریہ اس لیے منایا جاتا ہے کہ 1950 میں اسی دن ہندوستان نے اپنے آئین کو نافذ کیا تھا۔ لیکن بنیادی سوال یہ ہےکہ ہندوستان کا آئین کیا ہے اوراس میں وہ کون سی خصوصیات ہیں ، جس کا جشن برپا کیا جانا چاہیے؟
اور کیا صرف جشن منانا ہی کافی ہوگا اور کیا آئین صرف ایک دستاویز ہے؟
اس تناظر میں آئین ساز اسمبلی کی مسودہ کمیٹی کے چیئرمین ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کا یہ قول یاد رکھنا چاہیے کہ ،
آئین صرف وکیلوں کا دستاویز نہیں ہے بلکہ یہ زندگی جینے کا ایک ذریعہ ہے۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ آئین کے نافذ ہونے کے 74 سال بعد بھی زندگی جینے کا ایک ذریعہ بننا تو دور کی بات، یہ عام لوگوں تک پہنچ بھی نہیں پایا ہے۔
اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ملک کی اکثر آبادی آئینی دفعات، تصورات اور حقوق سے واقف نہیں ہے۔ اس میں صرف وہ لوگ شامل نہیں ہیں، جن کوعام طور پر’ناخواندہ’ کہا جاتا ہے یا’ ان پڑھ’ سمجھا جاتا ہے، بلکہ وہ لوگ جوخود کو تعلیم یافتہ اور بیدار شہری سمجھتے ہیں، ان کے درمیان بھی آئین کے سلسلے میں خواندگی کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے۔
گزشتہ سال کانسٹی ٹیوشن کنیکٹ کی طرف سے اسکولوں میں کیے گئے ایک سروے کے مطابق، 93 اسکولوں میں سے صرف 33 اسکولوں میں آئین کی تمہید کا سبق شامل ہے۔ اگرچہ طلبہ اپنے سیاسیات کے مضمون میں اس کو ضرور پڑھتے ہیں، لیکن یہ روزمرہ کی زندگی میں شامل کرنے کے نظریے سے نہیں ہوتا۔
آئینی خواندگی پر کام کر نے والی سول سوسائٹی کی تنظیم ‘وی دی پیپل’ ابھیان کے ذریعے کیے گئے ایک سروے سے بھی یہ واضح ہوتا کہ آئین کے بارے میں لوگوں کی معلومات نہ ہونے کے برابر ہے یا ان کو اس کا مطلق علم نہیں ہے۔
اس کے باعث متعد مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ ان میں سے دو کا ذکر یہاں ضروری معلوم ہوتا ہے۔ اس عدم واقفیت کاپہلااثر تو یہ مرتب ہوتا ہے کہ لوگ آئین سے متعلق ان غلط معلومات اور خبروں پر یقین کرتے ہیں،جن کا آئین اور اس میں درج دفعات سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
اس کی دوسری بڑی خرابی یہ ہے کہ لوگ اپنے آئینی حقوق کے لیے جدوجہد نہیں کرتے اور وہ اپنے آئینی فرائض کو خوش اسلوبی سے نہیں نبھاتے۔ یہ دونوں چیزیں نہ صرف کسی آئین کے لیے بلکہ ملک کی جمہوریت کے لیے بھی سنگین خطرہ ہیں۔
ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے اور اس سے نمٹنے کے لیے کیا کیا جا سکتا ہے؟
اس کی ایک وجہ تو یہ معلوم ہوتی ہے، جس کی طرف ماہر قانون آئیورجیننگ نے بھی اشارہ کیاتھا۔ انہوں نے کہا تھاکہ ہندوستانی آئین اپنی پیچیدہ زبان کی وجہ سے وکیلوں کی جنت ہے۔ دوسرے لفظوں میں، عام لوگوں کے لیے اس کو سمجھنا بہت مشکل ہے۔
جیننگ کا یہ بیان غلط نہیں تھا۔ لسانی پیچیدگی نے ہندوستانی آئینی قدروں اور اس کی خصوصیات سے لوگوں کو دور کر رکھا ہے۔ لیکن حالیہ برسوں میں ہندوستانی آئین نےان پیچیدگیوں پر قابو پا کر عام لوگوں کے درمیان کسی قدر جگہ بنا ئی ہے۔ جس کا سہرا شہری اور سماجی تنظیموں کو جاتا ہے۔
راجستھان اور مہاراشٹر میں عام لوگوں کے درمیان آئین پراپنی ملکیت قائم کرنے کے عمل پر کی گئی تحقیق سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ آئین کو نہ صرف عوام اپنا رہے ہیں بلکہ ان اقدار کے ذریعے شہری حقوق کو تقویت بھی عطاکر رہے ہیں اور شہری مسائل کا حل بھی ان لوگوں کے ذریعے تلاش کیا جارہا ہے۔
تحقیق اور آئینی خواندگی کے لیے کام کرنے والے لوگوں کے ساتھ ہماری بات چیت سے معلوم ہوتا ہے کہ عام لوگ لسانی پیچیدگیوں پر قابو پاتے ہوئے آئین کو اپنانے کے لیے ایک نئی زبان وضع کر رہے ہیں۔ یہ ان کی اپنی زبان ہے۔اس تناظر میں مہاراشٹر میں’سنویدھان کٹہ’ جیسی پہل قابل ذکرہے۔
آئین کے بار ے میں خواندگی کو لے کر کام کرنے والے اور ‘سنویدھان کٹہ’ کو شروع کرنے والے پروین جاٹھر نے ہمیں بتایا کہ – ‘کٹہ’ کا مراٹھی میں مطلب ہوتاہے عام شہریوں کے لیے عوامی مقامات پر بیٹھنے کی جگہ۔جس کو شمالی ہندوستان کے ریاست اتر پردیش اور بہار میں دالان یا چوپال کہتے ہیں۔
یہ کٹے کھلے عوامی مقامات ہوتے ہیں جہاں کوئی بھی آکر بات چیت کر سکتا ہے، یہ ایک خاص طرح کا تجربہ ہے، جو عام بات چیت کو آئینی بات چیت میں بدل کر،روزمرہ کی زندگی میں آئینی اقدار کو شامل کرتا ہے۔
اس طرح کے بہت سے منفرد تجربات نہ صرف آئینی دلچسپی کو ظاہر کرتے ہیں بلکہ ایک نئی آئینی زبان وضع کرنے کی کوشش کی طرف بھی ہماری توجہ مبذول کراتے ہیں ، یہ لوگوں کی بنائی ہوئی زبان ہے۔ ایسی بہت سی مثالیں مہاراشٹر اور راجستھان کے علاوہ دیگر ریاستوں مثلاًآسام، مدھیہ پردیش، کیرالہ، کرناٹک وغیرہ میں بھی دیکھنے کو مل رہی ہیں۔
لیکن یہ جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ بہت حوصلہ افزا اور قابل تحسین قدم ہونے کے باوجود بہت کم ہے۔اور اس مہم کو تیز کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اکثر یہ فرض کیا جاتا ہے کہ الگ الگ زبانوں میں ترجمہ محض سے عام لوگوں کے لیے آئین کی تفہیم اور اس کو اپنی زندگی میں شامل کرنے کا طریقہ ممکن ہو جائے گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ترجمے کا کام بہت اہم ہے لیکن اس سے تمام مسائل حل نہیں ہو سکتے۔
آئین کو عام لوگوں تک پہنچانے اور روزمرہ کی زندگی میں اس کو شامل کرنے کے لیے نئے نئے طریقے اختیار کرنے ہوں گے۔ یہاں یہ یاد رکھنا بھی ضروری ہے کہ جو تجربہ مہاراشٹر یا راجستھان میں کامیاب ہووہی اتر پردیش یا بہار میں کارگر رہے۔
ایک ایسے وقت میں جب آئین کی روح اور اس کے’بنیادی ڈھانچے کے نظریے’ کے تحفظ پر بحث چھڑی ہوئی ہے، یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس کی بنیادی روح اور اس کے مقصد کو عام لوگوں تک پہنچایا جائے کیونکہ جب تک ‘جمہور’ ہمارے آئین کو نہیں سمجھے گا، ہمارا جمہوری نظام صرف ایک کھلونا بن کر رہ جائے گا۔ اس کے نتیجے میں آئین مخالف قوتوں کے لیے اس میں رجعت پسند تبدیلیاں لانا بہت آسان ہوگا۔
(مہتاب عالم صحافی اور محقق ہیں، وہ سیاست، قانون، میڈیا اور ادبی موضوعات پر لکھتے ہیں۔ راجیش رنجن ‘سمتا فیلو’ ہیں اور راجستھان میں آئینی خواندگی پر کام کر رہے ہیں۔)
Categories: فکر و نظر