جموں و کشمیر میں ‘غیر قانونی طور پر قبضہ کی گئی’ سرکاری زمین کو خالی کرانے کے لیے انتظامیہ کی انسداد تجاوزات مہم کے حوالے سے پی ڈی پی کی سربراہ محبوبہ مفتی نے مرکز پر الزام لگایا ہے کہ وہ شہریوں کو ہراساں کر رہی ہے۔ اس کے ساتھ ہی جموں کے مضافات میں ہزاروں شہریوں نے اس مہم کے خلاف سڑکوں پر نکل کر مظاہرہ کیا۔
نئی دہلی: پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کی سربراہ محبوبہ مفتی نے مرکز کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی قیادت والی حکومت پر انسداد تجاوزات مہم کے ذریعےجموں و کشمیر کے لوگوں کو ‘ہراساں’ کرنے اور انہیں بے گھرکرنے کا الزام لگایا ہے۔
محبوبہ مفتی نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ بی جے پی انسداد تجاوزات مہم کو وادی کشمیر کے لوگوں کے خلاف ‘ہتھیار’ کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔
جموں و کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ نے لوگوں سے اس ‘حملے’کے خلاف متحد ہونے کی اپیل کی ہے۔
پی ڈی پی سربراہ نے کہا، جیسا کہ بی جے پی حکومت کے پاس غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ، پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے)، نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے)، انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) اور دیگر ایجنسیاں ہیں، جموں و کشمیر کے لوگوں کو ہراساں کرنے اور ان کو بے گھر کرنے کے لیے انسداد تجاوزات مہم ایک نیا ہتھیار ہے، جس کا استعمال بی جے پی حکومت کر رہی ہے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ‘نہیں،تو چین نے ہماری 20 ہزار مربع کلومیٹر زمین پر قبضہ کر رکھا ہے، پہلے سرکاری اس زمین کو واپس لے۔’
ہندوستان ٹائمز کے مطابق، جموں و کشمیر حکومت نے ریاست کی زمین کو مبینہ تجاوزات سے پاک کرنے کے لیے انسداد تجاوزات مہم شروع کی ہے۔ اس مہم نے عام لوگوں اور سیاستدانوں میں غم و غصے کو جنم دیا ہے، جن کا کہنا ہے کہ اس سے غریب لوگ متاثر ہوں گے جن کے پاس کئی دہائیوں سے بسرکرنے یا زندہ رہنے کے لیے چھوٹی چھوٹی زمینیں ہیں۔
جموں و کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر (ایل جی) منوج سنہا نے یقین دہانی کرائی تھی کہ کسی بھی غریب کو نشانہ نہیں بنایا جائے گا، بلکہ صرف ‘ان بااثر افراد کو نشانہ بنایا جائے گا، جنہوں نے ریاستی زمین پر قبضہ کرنے کے لیے اپنی حیثیت اور رتبے کا استعمال کیا ہے۔
منگل کو جموں و کشمیر انتظامیہ نے سری نگر کے ایک ممتاز ہوٹل کے مالکان سمیت تین اہم سیاسی اور دو کاروباری خاندانوں کے مبینہ قبضے سے ریاستی اراضی واپس لے لی تھی۔ گزشتہ ہفتے سری نگر میں نیشنل کانفرنس کے لیڈر علی محمد ساگر کی رہائش گاہ کے ایک آؤٹ ہاؤس اور باؤنڈری وال کو ہٹا دیا گیا تھا۔
محبوبہ مفتی نے کہا کہ جن لوگوں کو انسداد تجاوزات مہم کے تحت نشانہ بنایا گیا ان میں سے کچھ کے پاس مہاراجہ ہری سنگھ کے زمانے سے یہاں ہوٹل نیڈس جیسی زمین تھی۔
مفتی نے کہا، پہلے انھوں نے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان خلیج پیدا کی، پھر گرجروں اور بکروالوں اور شیعوں اور سنیوں کے درمیان۔ اب وہ امیروں کے خلاف بات بول کر امیر اور غریب کے درمیان خلیج پیدا کر رہے ہیں جبکہ سچ یہ ہے کہ غریبوں کے گھر گرائے جا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا، ‘یہ پوری طرح سے غلط ہے اور میں یہاں کے لوگوں سے اپیل کرتی ہوں کہ دیکھیں کہ لداخ اور کارگل کے لوگ کیسے متحد ہوئے ہیں۔ جب تک کشمیر اور جموں کے لوگ متحد نہیں ہوں گے، ہم اس حملے کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے۔ تماش بین نہ بنیں، آگے آئیں اور مسائل کو اٹھائیں۔
پی ڈی پی سربراہ نے کہا کہ سری نگر میں راج بھون اور بادامی باغ چھاؤنی کا علاقہ سرکاری زمین پر بنایا گیا ہے اور پہلے انہیں خالی کیا جانا چاہیے۔
خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق محبوبہ نے سوال کیا کہ گورنر ہاؤس اور بی بی چھاؤنی کہاں ہے؟ اگر وہ کہہ رہے ہیں کہ وہ بااثر لوگوں کے خلاف مہم شروع کر رہے ہیں تو اس کا آغاز گورنر ہاؤس اور بی بی چھاؤنی سے کریں۔ وہ ایسا کیوں نہیں کر رہے ہیں؟
سابق وزیر اعلیٰ نے یہ بھی الزام لگایا کہ یہ مہم جموں و کشمیر میں بدعنوانی کی مشینری کا ایک حصہ ہے۔
انہوں نے کہا، ‘میں آپ کو بڑی ذمہ داری کے ساتھ بتانا چاہتی ہوں کہ یہ کرپشن کا ایک حصہ ہے۔ وہ امیروں سے پیسے اور غریبوں سے ووٹ لینا چاہتے ہیں۔ وہ غریبوں کو مجبور کرنا چاہتے ہیں کہ وہ انہیں بی جے پی کے دفتر بلا کر پارٹی کی حمایت کرنے کو کہیں۔ امیروں کو ایک مخصوص افسر سے ملنے کو کہا جاتا ہے۔
جموں میں بے دخلی کے نوٹس کے خلاف احتجاج جاری ہے
جموں کشمیر میں ‘غیر قانونی طور پر قبضہ کی گئی ‘ سرکاری زمین کو خالی کرانے کے لیے انسداد تجاوزات کی جاری مہم کے خلاف خواتین اور بچوں سمیت ہزاروں لوگوں نے بدھ کے روز شہر کے مضافات سنجوان-بٹھنڈی میں سڑکوں پر نکل کر حتجاجی مظاہرہ کیا۔
حکام نے بتایا کہ اتھارٹی نے ایک پبلک نوٹس جاری کر کے ‘تجاوزات کرنے والوں’ سے کہا ہے کہ وہ سات دنوں کے اندر غیر قانونی تعمیرات کو ہٹا دیں۔ لوگوں نے اس وجہ سے مظاہرہ کیا ہے۔ مظاہرین نے علاقے میں مکمل بند کی کال دی تھی۔
مرکزی سڑکوں سے گزرتے ہوئے مظاہرین نے ترنگا لہرایا اور انسداد تجاوزات مہم کے خلاف نعرے لگائے اور پھر پرامن طریقے سے بائی پاس کے قریب ایک وسیع اراضی پر دھرنا دیا۔
سب ڈویژنل مجسٹریٹ کو مظاہرین سے ہٹنے کی درخواست کرتے ہوئے اور انہیں یہ یقین دلاتے ہوئے دیکھا گیا کہ کوئی بھی رہائشی کمپلیکس تباہ نہیں کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ضلعی انتظامیہ ان کے مسائل کو سننے کے لیے تیار ہے۔
نیشنل کانفرنس، کانگریس، پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی، اپنی پارٹی اور عام آدمی پارٹی (اے اے پی) سمیت تقریباً تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے نمائندے بھی احتجاج میں شامل ہوئے اور مہم کو فوری طور پر روکنے کا مطالبہ کیا۔
لوگوں نے 30 جنوری کو بھی علاقے میں مظاہرہ کیا تھا اور انسداد تجاوزات مہم ختم نہ ہونے کی صورت میں احتجاج میں شدت لانے کا انتباہ دیا تھا۔
ہندوستان ٹائمز کے مطابق، بدھ کو پرامن احتجاجی مارچ ملک مارکیٹ کے عیدگاہ میدان پر اختتام پذیر ہوا، جہاں انہوں نے حکومت سے ایک واضح حکم جاری کرنے کا مطالبہ کیا، جس میں یہ اعلان کیا جائے کہ نہ تو عام لوگوں کو بے دخل کیا جائے گا اور نہ ہی ان کے مکانات گرائے جائیں گے۔
بھٹنڈی، ملک مارکیٹ اور سنجوان میں بازار مسلسل دوسرے روز بھی بند رہے۔ مظاہرین میں اسکول جانے والے بچے بھی شامل تھے، جنہوں نے مارچ میں شرکت کے لیے اپنی کلاسیں چھوڑ دی تھیں۔
منگل کو، بی جے پی کے راجیہ سبھا ممبر غلام علی کھٹانہ نے بھٹنڈی کا دورہ کیا تھا اور یقین دہانی کرائی تھی کہ کسی بھی رہائشی کمپلیکس کو منہدم نہیں کیا جائے گا۔
تاہم، ایک ریونیو اہلکار نے بتایا کہ محکمہ نے سنجوان اور ملک مارکیٹ کے علاقوں میں چھ بے دخلی کے نوٹس دیے ہیں۔
اخبار کے مطابق بھٹنڈی کسی زمانے میں جموں کی جنگلاتی زمین تھی لیکن گزشتہ برسوں میں حکومتوں نے لوگوں کو گھر بنانے اور یہاں آباد کرنے کی ترغیب دی۔
بھٹنڈی کے رہائشی عبدالرشید نے کہا، حکومت نے ماضی میں جموں میں کئی غیر قانونی کالونیوں کو مستقل کیاتھا۔ وہ سنجوان، بھٹنڈی، ملک مارکیٹ اور چنی راما میں ایسا کیوں نہیں کر سکتی؟
واضح ہو کہ اپوزیشن پہلے ہی ایل جی کے اس قدم کو تنقید کا نشانہ بنا چکی ہے۔ پیپلز کانفرنس کے صدر سجاد لون نے بھی ٹوئٹر پر اپنی ناراضگی کا اظہار کیا اور حکومت سے اپیل کی کہ وہ ‘غریبوں کو بخش دیں’۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)
Categories: خبریں