حمید شاہد کی خود نوشت ’خوشبو کی دیوار کے پیچھے‘سےمقتبس؛ رشتے اور تعلقات دوپیڑھیوں تک تو کسی حد تک نبھ جاتے ہیں، اس سے اگلی پیڑھی کو عادتاً یا مجبوری میں رسم نبھانا ہوتی ہے اور بس۔
ضیافتِ رفتگاں
وہ جو کہتے ہیں کہ جس سے تم محبت کرتے ہو اُس کے گھر کی طرف جانے والے راستے پر گھاس نہ اُگنے دو تو یوں ہے کہ ابا جی ہوں یا چکی میں پیچھے رہ جانے والے عزیز اقارب، وہ ملنے ملانے کو گاؤں اور شہر کے بیچ کے راستے اپنے قدموں تلے اتنا روندتے رہے تھےکہ ان راستوں پر گھاس کےاُگنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہو تا تھا۔
انسانی رشتوں اور تعلقات کی کیمسٹری بھی عجیب ہے ۔ یہ رشتےایمان کی طرح ہوتے ہیں۔ یہاں بھی اِقْرَارٌ بِاللِّسَانِ وَ تَصْدِيْقٌ بِالْقَلْبِ ہی جیسا تقاضہ ہے۔ انہیں تازہ کرتے رہیں گے تو یہ زندہ رہیں گے ورنہ مر جائیں گے ۔ نہ مریں تو بھی ان سے رغبت اور گرمجوشی منہا ہو جائے گی اور محض دکھانے کو یا عادتاً رسم نبھا ئی جارہی ہوگی ۔
میرا مشاہدہ ہے کہ رشتے اور تعلقات دوپیڑھیوں تک تو کسی حد تک نبھ جاتے ہیں، اس سے اگلی پیڑھی کو عادتاً یا مجبوری میں رسم نبھانا ہوتی ہے اور بس۔دادا جان اور ابا جان والی نسل وہ تھی جو گاؤں سے نکل آئی تھی مگر گاؤں اُن کے لہو میں دوڑتا تھا اور دِل سے نہیں نکلا تھا۔ ہم رسم نبھانے والی نسل ہیں ۔ جبکہ ہمارے بچے…ٹھہرے صاحب! جو بات میں یہاں کہنا چاہتا ہوں وہ بات خلیل جبران نے بہت قرینے سے کہہ رکھی ہے۔ اُس سےایک عورت نے بچوں کی بابت اِستفسار کیا تو اُس نے کہا تھا؛
تمہارے بچے تمہارے کہاں ہیں؟ یہ تو اس زندگی کی اولاد ہیں جس کی فطرت خود اپنی نمو کے لیے بے قرار رہتی ہے۔ وہ تمہارے لیے بھیجے جاتے ہیں مگر وہ تمہاری ملکیت نہیں ہوتے۔ تم انہیں اپنی محبت دو۔ جس قدر دینا چاہو اور جس قدر دے سکو دو، مگر اپنا تخیل ان کے سپرد مت کرو۔ اس لیے کہ انہیں تمہارے تخیل کی ضرورت نہیں وہ اپنا تخیل اپنے ساتھ لاتے ہیں۔
خلیل جبران کا یہ بھی کہنا تھا؛
تم اپنے گھروں میں اپنے بچوں کو جسمانی آسائش پہنچاؤ مگر اُن کی روحوں کو آزاد چھوڑ دو۔ اس لیے کہ اُن کی روح جس گھر میں رہتی ہے اسے فردا کہتے ہیں۔ وہ گھر اس ماضی اور امروز سے دور ہے جس میں تمہاری سکونت ہے۔ تم اُس گھر میں نہیں جا سکتے۔اس گھر کا تصور بھی تمہارے ذہن میں نہیں سما سکتا۔ تم چاہو توبچوں کے قدم بہ قدم چلنے کی کوشش کر سکتے ہو مگر ان کو ہر گز اپنے قدم بہ قدم چلانے کی کوشش نہ کرنا، اِس لیے کہ زندگی پس پا نہیں ہو سکتی۔ اس کا قدم پیچھے نہیں ہٹ سکتا اور نہ وہ گزرے ہوئے کل کے ساتھ ٹھہر سکتی ہے ۔ تم سب کمانیں ہو جن سے تمہارے بچے تیروں کی طرح نکل کر فضا میں اپنا اپنا راستہ پیدا کرتے ہیں۔
جب کوئی تیر اپنا راستہ پیدا کر رہا ہوتا ہے تو وہ مڑ کر یہ نہیں دیکھتا کہ وہ کس کمان سے نکلا تھا اور کس تیر انداز نے اپنی قوت بازو سے کمان کھینچی تھی۔ تو یوں ہے کہ بچوں کی اپنی اپنی منزل اوربدلے ہوئے وقت میں ان کی اپنی زندگیوں کے تقاضے کچھ اور سہی مگر مجھے گزر چکا وقت اور جا چکے لوگ آوازیں دیتے ہیں تو خود کو مڑ کر پیچھے دیکھنے پر مجبور پاتا ہوں؛ میکسیکو کے ناول نگار حوان رُلفوکے ناول’پیڈرو پرامو’کے مرکزی کردار کی طرح جس سے اس کی ماں نے وعدہ لیا تھا کہ وہ اُس کے عہد شباب کے گاؤں کومالا کی طرف سفر کرے گا۔
حوان رُلفو کے اس ناول کا ترجمہ احمد مشتاق نے’بنجر میدان’کے نام سے کیا تھا تو مجھے یہ نام عجیب لگا تھا ۔ بنجر میدان کیا ہوا؟ محکمہ مال جاکر کسی موضع کی جمع بندی/ مثل حقیتاور خسرہ گرداوری اُٹھا کر دیکھ لیجیے جو خسرہ نمبر پہاڑ، چٹان، دریا، راستہ،قبرستان یا میدان کا ہوگا اسے وہاں بنجر ہی لکھاگیاہوگا۔
چوں کہ میدان اور کھلواڑے میں کوئی فصل کاشت نہیں کی جا سکتی نہ کی جاتی ہے لہٰذا وہ بنجر ہے اور میدان کے ساتھ بنجر کا لاحقہ اضافی ۔ یہیں بتاتا چلوں کہ احمد مشتاق غزل کے نمایاں ترین شعرا میں سے ایک ہیں۔ ایسے شاعر جو چونکانے کا حیلہ کرکے متوجہ نہیں کرتے جذبوں کو قرینے سے اور سنبھال سنبھال کر برتتے اور لہو کے بہاؤ میں اترتے ہیں۔ مجھے یاد ہے جب1981 میں اُن کا دوسرا شعری مجموعہ’گرد مہتاب’آیا تھا تو اس کے دیباچے میں انتظار حسین نے مزے لے لے کر لکھا تھا کہ احمد مشتاق کی شاعری میں وہ اتنا تو آسانی سے بتا سکتے ہیں کہ کس چیز کی کمی ہے ۔ انہی کے الفاظ مقتبس کر دیتا ہوں؛
ایک بات تو یہی ہے کہ اس میں نظریے کی سخت کمی ہے۔ سماجی دُکھ سکھ کا احساس بھی نہیں پایا جاتا ۔ پھر قومی تقاضےپورے کرنے کی لگن بھی نہیں ملتی۔ ایسی بات نہیں ہے کہ مشتاق کے پاس ان چیزوں کی کمی ہے بفضلہ تعالیٰ یہ سب کچھ اس کے دامن میں ہے مگر یہ سب کچھ چائے کی میز کے صرفے میں آجاتا ہے ، شاعری کی عبادت گاہ میں مشتاق جوتیاں اتار کر داخل ہوتا ہے۔
تو یوں ہے کہ یہ ہیں احمد مشتاق۔ ان کا یہ ترجمہ بھی خوب ہے۔ بس میرے ذہن میں ایک بات آئی تھی وہ کہہ دِی۔ اور ہاں وہ بھی بینکنگ کے شعبہ سے منسلک رہے ہیں۔ لاہور میں پیدا ہوئے اور ایک زمانے میں اسی شہر میں چارٹرڈ بینک میں تھے۔ پھر امریکہ جا بسے مگر اردو دنیا میں ہر کہیں اُن کا نام گونجتا رہتا ہے۔ ان کا ایک شعر، پھر اپنی بات کی طرف لوٹتا ہوں؛
یہ پانی خامشی سے بہہ رہا ہے
اسے دیکھیں کہ اس میں ڈوب جائیں
شمس الرحمٰن فاروقی نے اپنے شہرہ آفاق ناول’کئی چاند تھے سرِآسماں’کانام انہی سے مستعار لے رکھا ہے ۔ جس غزل کے ایک شعرکا یہ مصرع ہے اس کا مطلع دیکھیے؛
کہوں کس سے رات کا ماجرا نئے منظروں پہ نگاہ تھی
نہ کسی کا دامن چاک تھا نہ کسی کی طرف کلاہ تھی
فاروقی صاحب کے ناول کے نام والا شعر بھی درج کیے دیتا ہوں؛
کئی چاند تھے سر آسماں کہ چمک چمک کے پلٹ گئے
نہ لہو مرے ہی جگر میں تھا نہ تمہاری زلف سیاہ تھی
رہ رہ کر دھیان اس غزل کے ایک اور شعر کی طرف جا رہا ہے جسے بہت کم کم سنایا گیا۔ شاید اس لیے کہ اِک عجب طرح کی شوخی اور آرزوئے گناہ کا کمینہ پن اس میں سے اُمنڈا پڑتا ہے؛
وہ جو رات مجھ کو بڑے ادب سے سلام کر کے چلا گیا
اسے کیا خبر مرے دل میں بھی کبھی آرزوئے گناہ تھی
خیر،اب تک میں اپنی’بنجر میدان’ والی الجھن سے نکل آیا ہوں ۔ لیجیے یہاں اس سے مراد وہ اجاڑ پن اور خرابہ لے لیتے ہیں جس سے حوان رلفو کے ناول کے مرکزی کردار کو تب واسطہ پڑا تھا جب وہ ماضی کے کومالا میں خاموشیوں ، پرچھائیوں اور سرسراہٹوں کے مقابل ہو رہا تھا ۔ گزر چکے وقت کی سرسراہٹیں اور جاچکے لوگوں کی روحیں میرے پاس بھی آتی ہیں ، بالکل یوں جیسے ہمارے بچپن کے زمانے میں ہماری امی جان کے پاس آیا کرتی تھی۔
جی امی جان کے پاس۔ مجھے یاد ہے ہر جمعرات کو عصر کی نماز پڑھتے ہی امی جان رسوئی میں گھس جاتی تھیں کہ اس روز انہیں پکانے میں کچھ خاص اہتمام کرنا ہوتا تھا جس میں میٹھا ضرور ہوتا تھا۔ اُن کا کہنا تھا کہ مر ے ہوئے لوگوں کی روحیں جمعرات کو اپنے پیاروں سے ملنے آتی ہیں۔
مغرب سے ذرا پہلے جو پکا ہوتا اسے وہ رکابیوں اور پیالوں میں ڈال کر اپنے سامنے رکھ لیتیں اور دونوں ہاتھ دوپٹے کے اندرہی اُٹھا کر کچھ پڑھتی رہتی تھیں۔ہمیں اس روز کھانے کی مہک دور سے آجاتی اوراُن کے پاس جا بیٹھتے ۔ وہ دُعا کو اُٹھے ہاتھوں سے کچھ دور ہوبیٹھنے کا اشارہ کرتیں ۔ ہم پیچھے ہونے کا تاثر دینے کے لیے کولہے اِدھر اُدھر کھسکاتے اور تھوڑا اور آگے ہو جاتے ۔
ہماری للچائی ہوئی نظروں کا مرکز سامنے پڑی کھانے کی رکابیاں اور پیالے ہوتے۔ ہم امی جان کے دھیان کو تولتے ٹٹولتے رہتے کہ وہ کب چوکتا ہے اور ہمیں کچھ اچک لینے کا موقع ملتا ہے۔ ایسا موقع ہمیں کبھی نہ ملتا ۔ کبھی کبھی تو امی جان کا استغراق اتنا بڑھ جاتا کہ ہمیں خو د وہاں کسی کے آنے جانے کی سرسراہٹ سنائی دینے لگتی اور ادھر ادھر چلتے پھرتے ہیولے نظروں کے آگے گھومنے لگتے ۔
ہمیں کچھ کھانے کو مغرب کی اذان کے بعد ہی ملتا تھا کہ تب کہیں جاکر روحیں بہ قول امی جان واپس جا چکی ہوتی تھیں ۔اب میں سوچتا ہوں تو لگتا ہے کہ وہ روحیں اس تعلق اور محبت کے سوا کچھ نہ تھیں جو امی جان کو اپنے رفتگاں سے تھی۔
عشق اولڑا جی جنجال
نانا جان بہت پہلے فوت ہو چکے تھے؛ میری یادداشت کا حصہ ہونے سے بہت پہلے ۔ تاہم وہ امی جان کی یادداشت کا حصہ تھے اور وہ ان کے حوالے سے اپنے بچپن کے کئی واقعا ت سنا چکی تھیں ۔ یہ سب واقعات تقسیم سے بہت پہلے کے برسوں کے ہوتے تھے۔ ان میں سے ایک واقعہ اس قحط کا بھی تھاجس کا ذکر میرے ایک افسانے ‘معزول نسل’ میں آ چکا ہے۔
اس قحط میں سب گھر والے کڑوا باجرہ اور جوارکھانے کو مجبور تھے ۔ تب گندم کہیں نہ ملتی تھی یا پھر اتنی مہنگی ملتی کہ خرید کر کھانے کے لیے وسائل دستیاب نہ تھی ۔ ان دنوں لوگوں کے پاس پیسہ کم کم ہوتا تھا ۔ سب کے حالات اتنے مخدوش ہو گئے تھے کہ یہ کم کم پیسہ بھی نہ رہا تھا ۔
نقد نہ ہونے کی صورت میں سدارامیے کراڑ کی ہٹی سے کوئی بھی اناج، مرغیاںیا انڈے دے کر بدلے میں مطلوبہ جنس یا سوداسلف لیا جاتا تھا۔ کوئی اناج کہاں باقی بچا تھا؟ قحط نے کچھ ایسی مشکل کھڑی کر دی تھی کہ دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوئے تھے۔
بس ایک کڑوا باجرا اور ایک دوٹوپے جوار کےمیسر تھے اور اسی اناج سے پیٹ کی آگ بجھائی جارہی تھی ۔ امی جان کے مطابق وہ یا ان کی بہنیں جب کڑوے باجرے یا جوارکی روٹی کھانے سے انکار کر دیتی تھیں تو اکثر وہ اپنی آنکھوں پر ہاتھ یا چادر کا پلورکھ کر باہر نکل جاتے تھے ۔ یقیناً تب وہ اپنے آنسو چھپا رہے ہوتے تھے۔
یہ بات مرد کی شان کے خلاف تصور ہوتی کہ وہ روئے ۔ چاہے تکلیف برداشت کی حد سے بڑھ جائے اور چاہے دُکھ کا پہاڑ کچل کر رکھ دے اُسے برداشت اور ضبط سے کام لینا ہوتا ۔ہاں عورت رو سکتی تھی ۔ دھاڑیں مار مار کر روسکتی تھی۔ دُلہنیں ڈولی میں بیٹھتے ہوئے رو ئیں یا مائیں بہنیں انہیں رخصت کرتے ہوئے، کوئی بچھڑ جائے تو بین کیے جائیں یا کوئی بچھڑا ملے اور خوشی سے بھل بھل آنسو بہنے لگیں ، عورت پر کوئی قد غن نہیں تھی ۔
مرد کا چاہے ضبط سے کلیجہ پھٹا جا رہا ہو،اُس کی آنکھ گیلی نہیں ہونے چاہیے ۔ پتلیاں ذرا سا بھیگتیں تو فوراً طعنہ آجاتا ؛’کیا تم کوئی عورت ہو ؟’
نانا جان کو یوں منھ آنکھیں ڈھانپےباہر نکلتے دیکھ کر نانی جان نے رندھائی ہوئی آواز میں کہا تھا؛’عورتوں کی طرح روتا ہے۔’امی جان جب یہ بتا رہی تھیں تو خود بھی اپنے باپ کی طرح چہرہ دوپٹے سے ڈھانپے ہوئے تھیں۔
نانی جان بہت مضبوط اعصاب کی مالک تھیں ۔ انہوں نے بیوگی کا لمبا عرصہ دیکھا اور بفضلہ تعالیٰ لمبی عمر پائی تھی ۔امی جان نے بتایا تھا کہ وہ جوانی میں بہت خوب صورت تھیں۔ گورا چٹا دودھ جیسا رنگ ، اونچا لمبا قد اور سنہرے بال۔
جب ہم نے نانی جان کو دیکھا تب بھی وہ دلکشی قائم تھی حالاں کہ ان کا چہرہ اور ہاتھ پاؤں جھریوں سے بھر چکے تھے اور بالوں کا سنہری رنگ دُھل کر سفید ہو چکا تھا ۔ نانی جان کے بعد ہماری بڑی بہن کے بچوں میں سے کچھ کے بال سنہرے نکلے تھے ۔
گویا انہوں نے اپنی پڑنانی سے یہ وراثت لی تھی ۔ میرے حصے میں شاید ان جیسا صبر آیاتھا۔ جب تک وہ زندہ رہیں ہمارا گاؤں میں آنا جانا بھی زیادہ رہا۔ گرمیوں کی چھٹیاں تو ہماری ننہال ہی میں گزرتی تھیں ۔ ہم نے ان کا وہ روپ بھی دیکھا تھا کہ ہمیں دیکھ کروہ آسمان کی طرف دیکھتیں اور کہتیں؛’اللہ سوہنیا!تیرا ہزار لاکھ بارشکر ہے’، ہمارے سروں پرہاتھ پھیرتیں اور پیار کرتے ہوئے رو دیتی تھیں۔ روتے روتےکہتے جاتیں؛
‘میرے سوہنے مولا !اگر اس آنگن میں بھی رونق لگا دیتے تو تیرے خزانے میں کیا کوئی کمی ہو جاتی۔’
ان کا یہ رونا تڑپنا ہم نے ان دنوں میں دیکھا تھا جب ہمارے ماموں عید محمد کے ہاں کوئی اولاد نہ ہو رہی تھی۔ نانی جان کی تین بیٹیاں تھیں تینوں آباد اوراُن کے آنگن بچوں سے بھرے ہوئے۔ یہ ایک بیٹا تھا ، سب سے چھوٹا مگر اس کی محرومی سب سے بڑی تھی۔
ایک کے بعد ایک شادی کی مگر قدرت کچھ یوں امتحان لے رہی تھی کہ نانی جان کا انتظار ختم ہونے میں ہی نہ آتا تھا ۔ امی جان نے بتایا کہ ایک روز نانی جان بہت دیر تک روتی اور دعائیں کرتی رہیں۔ دل مطمئن نہ ہوا تو اوپر آسمان کی طرف دیکھا اور کہا؛
‘قسم لے لو اللہ میاں کہ اگر میرے بیٹے کو تو نے اولاد دی تو میں اس کے پیٹ سے نکلی آلائش کھالوں گی۔’
اللہ کا کرنا یہ ہوا کہ تیسری بیوی سے ماموں کے ہاں تین اولادیں ہوئیں ؛ دوبیٹے اور ایک بیٹی۔ نانی جان ان کے صدقے واری جاتیں اور بچوں کے ساتھ بچہ بنی رہتیں ۔ماموں کو بھی اب اپنی زندگی سے مطمئن ہو جانا چاہیے تھا۔ رزق کی فراوانی تھی ۔
خدمت گزار بیوی تھی اور گھر کے آنگن میں بچوں کی کلکاریاں جی لبھانے کو تھیں مگر قدرت کو ہماری نانی جان کا ایک اور امتحان مقصود تھا ۔ وقت نے کروٹ لی اور انہیں ایک ایسے دُکھ نےگرفتار کر کیا جوانہیں لے کرہی قبر میں اُترا تھا ۔
ہوا یوں کہ ماموں جان ایک اور عشق میں مبتلا ہو گئے تھے ۔ کہتے ہیں ان کی پہلی شادیاں بھی عشق کا حاصل تھیں۔ وہ پہلےہر بار اپنی ماں کی رضا حاصل کر لیتے تھے کہ انہیں بہر حال اپنے بیٹے کے ہاں اولاد چاہیے تھی۔ اس باروہ بالکل راضی نہیں ہو رہی تھیں ۔ انہوں نے بیٹے کو اولاد کے واسطے دیے ۔ جھاڑا جھٹکا۔ منت سماجت کی۔ مگر ڈھاک کے وہی تین پات۔ ایک ہی ضد؛ شادی کرنی ہے اور ضرور کرنی ہے۔
ماموں جس خاتون کے عشق سے بے حال تھے ، اس کا خاوند قتل ہو گیا تھا ۔ اس قتل کے حوالے سے گاؤں میں طرح طرح کے قصے مشہور تھے؛ کہہ لیجئے جتنے منھ اتنی باتیں ۔ قصہ کوتاہ ، ماموں نے اپنے بچوں کی ماں کو طلاق دِے دی۔ پہلی بیویوں کو بھی انہوں نے طلاق دے کررخصت کیا تھا مگر اس بار معاملہ الجھ گیا تھا۔
یہ تیسری بیوی تینوں بچوں کو ساتھ لے کر گھر سے نکلنے لگی تو ساس نے کہا ؛’تم بچوں کو لے کرگھر سے نہ نکلو۔ گھر سے وہ نکلے جس کی غلطی ہے۔’جو غلطی پر تھا وہ یہ مانتا ہی کب تھا کہ وہ غلطی پر تھا۔ وہ مرد تھا۔ ایک بیٹا اور گھر کا وارث۔ لہٰذا جس نے گھر سے نکلنا تھا وہی بچوں کو لے کر بے گھر ہو گئی۔
نانی جان نے سب کے سامنے قسم کھالی کہ اگر ان کا بیٹا کوئی عورت گھر میں مشرقی دروازے سے لائے گا تو وہ مغرب سے نکل جائیں گی۔
اُس گھر میں داخل ہونےکے دروازے بھی دوتھے؛ ایک مشرق کی سمت ،جس کے ایک طرف تین کمرے تھے اور دوسری طرف ایک۔ اس دروازے کے سامنے ڈیوڑھی تھی جو کمروں کے سامنے برآمدے میں کھلتی تھی ۔ دوسرا دروازہ طویل صحن کے دوسری طرف مشرق کی سمت گلی میں کھلتا تھا ۔
ماموں کا عشق سر چڑھ کر بول رہا تھا اپنی ماں کی ایسی قسموں کو خاطر میں کیسے لاتا۔ انہوں نے جس سے عشق کیاتھا اسے دلہن بنا کر گھر میں لے آئے۔ اسے بھی اور اس عورت کی اس بیٹی کو بھی جو مقتول شوہر سے تھی۔ نانی جان کو اپنی قسم یاد تھی۔وہ اُٹھیں اور بہت تیزی سے صحن پار کرکے گھر سے نکل جانا چاہا ،یہ نہ دیکھا کہ صحن میں کسی نے پانی پھینکا ہے۔ وہ وہاں پھسلیں ، گریں اور کولہے کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ ان کی ٹانگ کیا ٹوٹی ساتھ ہی اُن کی قسم بھی ٹوٹ گئی ۔
Categories: ادبستان