دستور ساز اسمبلی میں آئین کا پہلا مسودہ پیش کرتے ہوئے ڈاکٹر امبیڈکر نے کہا تھا کہ،’ایک نوزائیدہ جمہوریت کے لیےعین ممکن ہے کہ وہ جمہوریت کا ملمع بنائے رکھے، لیکن درحقیقت آمریت میں تبدیل ہوجائے۔’جب مودی کی انتخابی جیت کو جمہوریت،ان سے سوال یا اختلاف کرنے والوں کو ملک کا دشمن کا بتایا جاتا ہے ، تب ڈاکٹر امبیڈکر کی تنبیہ درست ثابت ہوتی نظر آتی ہے۔
راشٹریہ سویم سیوک سنگھ 1925 میں بنا تھا۔ہندو جن جاگرن سمیتی اور سناتن سنستھا جیسی بالادست ہندو تنظیموں نے گزشتہ سال اعلان کیا کہ ہندوستان 2025 تک ہندو راشٹر بن جائے گا۔ یہی نہیں، راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے سرسنگھ چالک موہن بھاگوت نے کہا کہ ہندوستان تو ہندو راشٹربنے گا ہی، 10-15 سال میں اکھنڈ بھارت (متحدہ ہندوستان) بھی بن جائے گا۔
‘ہماری گاڑی چل پڑی ہے، اس میں صرف ایکسلریٹر ہے اور بریک نہیں ہے۔جس کو بیٹھنا ہے ہمارے ساتھ بیٹھ جائے، لیکن جو راستے میں آئے گاوہ مٹ جائے گا۔’
مخالفین کو گاڑی کے نیچے کچلنے والا محاورہ سنگھ کے لوگوں کو بے انتہا پسند ہے۔ 2002 میں گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام کے لیے ان کی ذمہ داری کے بارے میں پوچھے جانے پر مودی نے کہا تھا کہ،‘گاڑی کے نیچے کتے کا پلا بھی کچل جائےتو افسوس تو ہوتا ہی ہے۔’
بنا بریک والی گاڑی میں اگر ایکسلریٹر چلا دیا جائے تو کیا نتیجہ ہوتا ہے؟ کوئی طفل مکتب بھی بتا سکتا ہے کہ ایسا کرنے پر ایک خوفناک حادثہ رونما ہونا یقینی ہے اور ایسے حادثے میں کوئی زندہ نہیں بچ پائے گا۔ ڈاکٹر امبیڈکر نے تو بہت پہلے بتا دیا تھا کہ اگر ہندوستان ہندو راشٹر بن گیا تو یہ ملک کے لیے سب سے بڑا حادثہ ہوگا۔
موہن بھاگوت اور نریندر مودی کی بنابریک والی گاڑی اپنے ساتھ پورے ملک کو اس حادثے کی طرف لے جا رہی ہے۔نفرت کے ایندھن پر چلنے والی یہ بے لگام گاڑی،اقتدار کے نشے میں دھت یہ ڈرائیور،سب متحدہ ہندوستان کا سراب دکھا کر تیز رفتاری سے دوڑ رہے ہیں۔لیکن آگے صرف ایک گہری کھائی ہے، منھ کھولے انتظار کر رہی ہے۔
کوئی بھی ملک تباہی کو اپنی منزل سمجھ کر سفر پر نہیں نکلتا۔ ہندوستان کے لوگ نریندر مودی کی گاڑی میں ‘وکاس’ کے وعدہ سن کر بیٹھ گئے۔ اور سفر کے ہر پڑاؤ پر تباہی کے منحوس اشارے ملتے گئے۔
نفرت کا معمول بن جانا۔ ماب لنچنگ کی خبروں کا عام ہو جانا۔نیو انڈیا کا نیو نارمل بن گیا؛ بغیر کسی ثبوت کے صرف حکومت سے سوال کرنے یا اس کے فیصلے کے خلاف پرامن احتجاج کرنے کے لیے لوگوں کو دہشت گرد قرار دے کر برسوں تک جیل میں ڈال دیا جانا – جبکہ ‘گولی مارو٭٭٭کو’، ‘سبزی کاٹنے والے چاقوکو تیز رکھنا تاکہ لو جہاد کرنے والے کا سر کاٹا جاسکے’ کہنے والے جیل میں ایک دن بھی نہیں گزارتے، بلکہ ایم ایل اے –ایم پی بنے رہتے ہیں۔
عوام کے ساتھ کسی قسم کی بات چیت اور بحث کے بغیر، دنیا کو الٹ پلٹ کرنے والے حکومتی فیصلے آسمان سے بجلی کی طرح آتے ہیں– نوٹ بندی، جی ایس ٹی، زرعی قانون، لیبر کوڈ، آرٹیکل 370 کا رد کیا جانا۔ آسام میں دو لاکھ لوگوں کی شہریت کو مشتبہ بنانے والا این آر سی– اور اسے پورے ملک میں نافذ کرنے کا اعلان۔
پھر این آر سی سے خوفزدہ لوگوں کو’ کرونالوجی’سمجھا دیا جانا کہ پہلے سی اے اے لائیں گے، جو پڑوسی ممالک کے مسلمانوں کو چھوڑ کر تمام پناہ گزینوں کو شہریت فراہم کرے گا۔این آر سی کی فہرست سے باہر رہ جانے والوں کو فلٹر کرکے ایسے تمام ‘پناہ گزینوں’ کو شہریت میں بیک ڈور سےداخلہ مل جائے گا۔ صرف ‘گھس پیٹھی دیمکوں‘ کی شہریت چلی جائے گی۔ ‘گھس پیٹھیوں’ کو کپڑوں سے پہچان لیں گے۔
کرونالوجی، آپ نے سن لیا، آپ کو سمجھا دیا گیا- لیکن اگر آپ نےاس کرونالوجی کے بارے میں سماج کو خبردار کیا، تو آپ ملک کےدشمنوں کے ایجنٹ ہیں جو افواہ پھیلا رہے ہیں۔ ملک کے دشمنوں کی جگہ تو جیل ہے۔
‘شو واہنی گنگا‘ کی ہولناک تصویر، ریپ کرنے والوں کے حق میں پہلی بار عوامی احتجاج (کٹھوعہ واقعہ، اناؤ واقعہ، آسارام، رام رحیم)۔ اسی ‘نو بریک اونلی ایکسلریٹر’والی گاڑی کی رفتار سے بڑھتی مہنگائی اور بڑھتی ہوئی بے روزگاری کی شرح 45 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی۔
لیکن ان سب کے باوجودروزانہ ٹیلی ویژن کے پردے پر چمکتے ہوئے چہرے اور چمکتے دانتوں والی مسکراہٹ چپکائے اینکربتاتے رہے ہیں کہ ‘سب چنگا ہے’ گاڑی بالکل صحیح چل رہی ہے۔ گاڑی کی سمت یا رفتار پر شک کرنے والا یا سوال کرنے والا ملک کا دشمن، ملک کی ترقی کا دشمن۔
خیرمان لیا کہ اس گاڑی میں خطرات ہیں، لیکن اگر یہ گاڑی نہیں تو کون سی؟ اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ اوہ! گاڑی کے نیچے کچلے جانے والوں کی چیخیں سن کر آپ بے چین ہیں؟ لیکن جب تک آپ گاڑی میں بیٹھے ہیں، تب تک کچلے جانے کا خطرہ تو ہے نہیں!
کچلے جائیں گے توصرف ملک کےدشمن۔ آپ گھبرا رہے ہیں–کہیں آپ ملک کے دشمن تو نہیں؟چہرے پر شکن سے ملک کے دشمن پہچانے جاتے ہیں۔ کچلے جانے والوں کی فکر کرنا بھی ملک کےدشمن ہونے کی پہچان ہے۔ دوستوں کے درمیان یا باؤنڈری وال کے اندر، آپ نے سرگوشی کے انداز میں ڈرائیوروں کے حوالے سے ذرا بھی سوال کیا؛ یہاں تک کہ اپنے بستر پر لیٹے لیٹےاپنے خواب میں بھی اگرسوال آنے دیا تو– ڈرائیوروں کو پتہ چل جائے گا۔
اگر آپ ملک کے ساتھ ہیں تو روزانہ گاڑی کے لیے اپنی بھکتی اور عقیدات کا مظاہرہ کیجیے۔ سب کو بتا ئیے کہ ہرپڑاؤ پر خوشیاں ہی خوشیاں ہیں۔ سب سے کہیے کہ چیخوں کی آواز، سڑتے ہوئے ملک صرف ٹھگنی کی آواز ہے، جس کو ملک کے دشمنوں نے بھیجا ہے آپ کومایا جال میں پھنسانے – کان بند کرلیں۔
ملک کےاتنے لوگوں نے اس گاڑی کو بھاری ووٹوں سے منتخب کیا کہ کوئی دوسری گاڑی تومنتخب ہونے کے قریب بھی نہیں پہنچی۔ اس گاڑی کے علاوہ تمام گاڑیوں سے میدان تیزی سے ‘مکت’ (آزاد) ہو رہا ہے۔ اکثریت کے اس یکطرفہ فیصلے پر سوال اٹھانا جمہوریت کے اصولوں کے خلاف نہیں ہے؟
بہرحال، 26 نومبر 1949 کو دستور ساز اسمبلی میں ہندوستان کے آئین کا پہلا مسودہ پیش کرتے ہوئے ڈاکٹر امبیڈکر نے جو کچھ کہا تھا اسے پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ ایسا لگتا ہے کہ آج وہ ہمارے سامنے بیٹھ کر ہی ہم سے باتیں کر رہے ہیں۔
ملک کے روشن مستقبل کی بنیاد رکھنے کے لیے جشن کے ماحول کو شدید تحفظات کا اظہار کر کےخراب کرنا ، اس فضا کو مکدر کرناتو دیدہ دلیری ہی تھی! یہ جان کر ڈاکٹر امبیڈکر نے کہا کہ ‘میں اپنی بات یہیں ختم کر دیتا، لیکن میں اپنے ملک کے مستقبل کے بارے میں اتنا فکرمند ہوں کہ میں اس موضوع پر بھی کچھ کہنا چاہتا ہوں۔’
ان کی فکر کیا تھی؟ کہ آئین کے باوجود ہندوستان میں ‘جمہوریت کی جگہ آمریت’ نہ لے لے۔
اگر ڈاکٹر امبیڈکریہ کہتے تو حیرت نہ ہوتی کہ جمہوریت کو آمریت سے بچانے کے لیے آئین اور انتخابی نظام کو مضبوط رکھنے کی ضرورت ہے۔ لیکن ان جیسےدوربیں رہنما کو ملک کے سفر کے آغاز سے پہلے ہی آگے کی کھائی کے خطرے کا بالکل درست اندازہ تھا۔ اور یہ بھی کہ یہ خطرہ انتخابات کے باوجود نہیں بلکہ انتخابات میں حکمران جماعت کی یکطرفہ جیت اور اپوزیشن کی کمزوری کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ ‘اس نوزائیدہ جمہوریت کے لیے یہ عین ممکن ہے کہ وہ جمہوریت کا ملمع برقرار رکھے، لیکن حقیقت میں یہ آمریت میں تبدیل ہوجائے’۔
جب بی جے پی لیڈر مودی جی کے انتخاب میں ‘مہاوجے’ (بے مثال کامیابی) کو جمہوریت کہتے ہیں، مودی جی سے سوال یا اختلاف کرنے والوں کو جمہوریت کا دشمن بتاتے ہیں، اور اپوزیشن سے پاک ہندوستان کے ہدف کا اعلان کرتے ہیں، تب وہ ڈاکٹر امبیڈکرکی تنبیہ کو درست ثابت کر رہے ہیں؛’ انتخابات میں شاندار کامیابی کی صورت میں اس امکان کے حقیقت بننے کا خطرہ زیادہ ہے۔’
اس خطرے سے کیسے بچا جائے؟ یہ انہوں نے ملک کے لیڈروں کو نہیں بلکہ ملک کے عوام کو نصیحت دی تھی۔
انہوں نے مستقبل کے شہریوں سے، یعنی ہم لوگوں سے کہا؛
‘اپنی آزادیوں کو کسی مہانایک (بڑے رہنما)کے قدموں میں نہ سونپ دیں۔ اس پر اس حد تک بھروسہ نہ کریں، اسے اتنا اختیار نہ دیں کہ وہ جمہوری اداروں کو تباہ کرنے کے قابل ہو جائے۔
پارلیامنٹ، مقننہ، عدلیہ، پولیس، عدالتیں، الیکشن کمیشن، ای ڈی، پبلک سیکٹر کےبینک جیسے تمام اداروں کو تباہ کرنے کا مطلب؛ ان کے اور حکومت کے درمیان فاصلے کا کم ہو جانا، دونوں میں گھال میل ہوجانا، حکومت سے ان اداروں کی آزادی کو کمزور کرنا۔
ڈاکٹر امبیڈکر نے واضح طور پر کہا کہ ‘یہ احتیاط کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں ہندوستان کے معاملے میں زیادہ ضروری ہے، کیونکہ ‘بھکتی یا ہیرو ورشپ ہندوستان کی سیاست میں جو کردار ادا کرتی ہے اس کا نتیجہ ہے کہ دنیا کا کوئی بھی ملک ہندوستان کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ مذہب کے میدان میں بھکتی روح کی نجات کا راستہ ہو سکتی ہے، لیکن سیاست میں بھکتی یا ہیروورشپ زوال اور بالآخر تانا شاہی کا سیدھا راستہ ہے۔’
ڈاکٹر امبیڈکر کی اس دوبیں وارننگ کو سننے اور سمجھنے کے لیے ابھی دیر ہے۔ جب تک ٹائی ٹینک کے کپتان نے آئس برگ کو دیکھا،تب تک جہاز کی رفتار اتنی تیز تھی اور آئس برگ اتنا قریب تھا کہ کسی بھیانک اور مہلک تباہی سے بچنا ناممکن تھا۔
آج شہاب ثاقب کی رفتار سے آمریت کی طرف دوڑتی بے لگام گاڑی ٹائی ٹینک کے اسکیل کی تباہی کی منتظر ہے۔ ملک کو تباہی سے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ بے لگام ڈرائیوروں کی پرستش کی عادت ترک کی جائے، اپنی آزادی ان کے قدموں میں نہ ڈالیں، ان کے ہاتھ میں نہیں بلکہ اسٹیئرنگ، نقشہ اور گاڑی کی چابیاں اپنے پاس رکھیں۔ اگر ڈرائیور چابی، اسٹیئرنگ اور نقشہ آپ کے حوالے کرنے کو تیار نہیں تو سمجھ لیں کہ آمریت کی منزل زیادہ دور نہیں۔ ہندوستان کے لوگوں کو جلد از جلد اس گاڑی سے اترنا چاہیے، تب ہی ملک کو بچایا جا سکتا ہے۔
(کویتا کرشنن سماجی کارکن ہیں۔)
Categories: فکر و نظر