اتر پردیش کی مرادآباد پولیس نے بجرنگ دل کے احتجاج اور دھمکی کے بعد ایک مسلمان کی اپنی نجی عمارت میں ہو رہی نماز تراویح کو بند کروادیا۔ کیا اب یہ حقیقت نہیں ہے کہ مسلمان یا عیسائی کا چین و سکون تب تک ہے جب تک آر ایس ایس کی تنظیمیں کچھ اور طے نہ کریں؟ کیا اب ان کی زندگی غیریقینی نہیں ہو گئی ہے؟
رمضان المبارک کا مہینہ شروع ہو چکا ہے۔ ہندوتوا تنظیمیں سرگرم ہوگئی ہیں۔ نہیں، وہ روزہ داروں کے لیے افطاری کا انتظام نہیں کر رہی ہیں۔ دوسروں کی زندگی میں ہم آہنگی سے شامل ہونے کی فطرت سے وہ بیگانہ ہیں۔ مسلمان اور سکھ تو رام نومی کے جلوس میں شامل پرجوش لوگوں کو یا کانوڑیوں کو پانی اور شربت دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ کسی دوسرے مذہبی تہوار یا خاص موقع پر ہندوایسا کرتے نہیں دیکھے گئے۔
درحقیقت دیگر مذاہب کے لوگ اب یہ ماننے لگے ہیں کہ ہندو ان کے تئیں جتنا زیادہ لاتعلق ہوں گے، اتنا ہی ان کے لیے بہتر ہوگا۔ میرے ہندو دوست اعتراض کریں گے کہ آپ سب کوایک ہی لاٹھی سے کیوں ہانکتے ہیں، تویہاں ہندو کے بجائے ہندوتواوادی کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔
مسلمانوں کے لیے رمضان پرہیزگاری اور تقویٰ کا مہینہ ہے۔ ایشور، اللہ یا خدا کی طرف عقیدت مندانہ ارتکاز۔کسی بھی دنیاوی اشتعال سے خود کو پاک رکھنے کی کوشش روزہ ہے، صرف بھوکا رہنا نہیں۔ لیکن ہندوتوا پرستوں کے لیےیہ ایک نئے جوش کا باعث ہے۔ مسلم دشمنی اور نفرت کوظاہر کرنے کا نیا بہانہ۔
مرادآباد میں بجرنگ دل نے ایک مسلمان کے گودام کی عمارت میں تراویح پڑھےجانے پر احتجاجی مظاہرہ کیا۔ خیال رہے کہ عمارت مسلمان کی ہے، کوئی پبلک پراپرٹی نہیں۔ لیکن بجرنگ دل کو اس پر اعتراض ہے کہ اس کے اندر ایک سے زیادہ خاندان ایک ساتھ تراویح کیوں پڑھ رہے ہیں۔ کیوں کسی کے گھر میں اجتماعی طور پرنماز یا تراویح ہورہی ہے؟ بجرنگ دل نے اس گھر کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا، دھمکی دی کہ اگر اجتماعی تراویح کو بندنہیں گیا تو انجام ٹھیک نہیں ہوگا۔ اگر اجتماعی تراویح جاری رہی تو وہ وہاں ہنومان چالیسہ پڑھے گا۔
یہ بھی عجیب بات ہے کہ ہندوتوادیوں کو رام یا ہنومان یا اپنی مذہبی کتابوں کی یاد اسی وقت آتی ہے جب انہیں مسلمانوں یا عیسائیوں کے خلاف اپنی بغض یا نفرت کا اظہار کرنا ہوتا ہے۔ تو کیا یہ تحریریں مذہبی الہام کا ذریعہ ہیں یا دوسرے مذاہب کے خلاف نفرت اور تشدد کا ایک آلہ یا کور ہے؟ ایسے مناظر عام ہو گئے ہیں جن میں بھارتیہ جنتا پارٹی، بجرنگ دل یا وشو ہندو پریشد کے لوگ ہنومان چالیسہ پڑھ رہے ہیں یا گرجا گھروں کے سامنے یا جمعہ کی نماز کے سامنے شور کرتے ہوئے بے سرا بھجن گا رہے ہیں۔
پولیس کو کیا کرنا چاہیے تھا؟ قاعدے سےاسے بجرنگ دل کے لوگوں کے خلاف امن وامان میں خلل ڈالنے کے الزام میں مقدمہ درج کر کے انہیں سزا دینی چاہیے۔ لیکن ہندوستان میں اس کے بالکل برعکس ہوتا ہے۔ مرادآباد پولیس نے بجرنگ دل کو نوٹس دینے کے بجائے صرف اپنی عمارت میں تراویح پڑھنے والوں کو نوٹس جاری کیا۔ اگر وہ تراویح کے لیے جمع ہورہے ہیں تو یہ بھی ممکن ہے کہ وہ آپس میں مار پیٹ کر لیں۔ کچھ لوگوں نے اس وجہ سے امن و امان کے متاثر ہونے کا اندیشہ ظاہر کیا ہے، اس لیے آپ 50-50 ہزار روپے کا شخصی بانڈ بھر کر اس ماہ کے امن و امان کی ضمانت دیں۔ بصورت دیگر آپ کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
اگر یہ ناقابل یقین لگتا ہے تو پولیس نوٹس پڑھیں۔ اس کے ساتھ پولیس نے دعویٰ کیا کہ مسلمانوں نے وعدہ کیا ہے کہ سب اپنے گھروں میں اکیلے ہی تراویح پڑھیں گے۔ یہ کرتے ہوئے کیا پولیس نے یہ نہیں سوچا کہ اس نے غنڈوں کی دھمکیوں کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے ہیں اور اس سے اس کااقبال کم ہو ا ہے؟ یا وہ خود غنڈوں کی ہم خیال ہے اور ایسا کرنے کو مسلمانوں کو مجبور کرنے کے لیے اس دھمکی کی آڑلے رہی ہے؟
ہمارے دوست کہہ سکتے ہیں کہ کروڑوں کے ملک میں ایسے کسی ایک واقعے کو عام نہیں کرنا چاہیے۔ لیکن کیا اب ایسا واقعہ ایک استثنیٰ ہے یا کسی سلسلے کا حصہ؟ اور کیا اب ایسا واقعہ کہیں نہیں ہو سکتا؟ کیا اب یہ سچ نہیں ہے کہ مسلمان یا عیسائی کا چین و سکون تب تک ہے جن تک جب تک آر ایس ایس کی تنظیمیں کچھ اورطے نہ کریں؟ کیا اب ان کی زندگی غیر یقینی نہیں ہو گئی ہے؟
ہندوتوا تنظیمیں اب ہدایات جاری کر رہی ہیں کہ مسلمانوں کو رمضان کیسے منانا چاہیے، عید یا بقرعید میں کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں کرنا چاہیے، محرم اور شب برات کیسے منائی جائے۔ پولیس اور انتظامیہ نے اپنی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے مسلمانوں کو یہ سب ماننے پر مجبور کر دیا ہے۔ ہندوؤں کو مسلمانوں کی ٹوپی، ان کے برقع، حجاب، ان کی نماز اور قربانی سےچڑ ہونے لگی ہے۔ان سب کو الگ الگ نہیں سمجھا جا سکتا۔
کیا آپ کرناٹک بی جے پی لیڈر کی اس تقریر کو اس واقعہ سے بالکل مختلف سمجھ سکتے ہیں جس میں وہ دھمکی دے رہے ہیں کہ اقتدار میں آنے کے بعد وہ مائیک سے اذان بند کر دیں گے؟ یا کرناٹک سے بہت دور آسام کے تمام مدارس کو بند کرنے کی وزیر اعلیٰ کی دھمکی؟ یا مہاراشٹر میں ہزاروں ہندوؤں کے جلوس، جو ‘لو جہاد’ کے خلاف نعرے لگا رہے ہیں، ان کا اس واقعے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
اس واقعہ کا کرناٹک حکومت کے مسلمانوں کے لیے 4 فیصد ریزرویشن چھیننے کے فیصلے سے کیا تعلق ہو سکتا ہے؟ کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ مراد آباد کے اس واقعہ کا راجستھان کے جنید اور ناصر کے قتل سے کوئی تعلق ہے؟ یا مسلمان لگنے کی وجہ سےپونے میں محسن شیخ کے قتل سے اس کا کیا تعلق ؟
ہم جانتے ہیں کہ ایک کے بغیردوسراممکن نہیں۔ یہ سب ایک وسیع ترمسلم مخالف اور عیسائی مخالف سیاست کا لازمی حصہ ہے۔ مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف سڑکوں پر ہونے والے تشدد، پولیس اور حکومتی احکامات کے ذریعے ان کی زندگیوں کو کنٹرول کرنے کی کوششیں، اور وہ قوانین جو ان کی زندگی کو ہندوتوا کے طریقے سے چلانے کی کوشش کرتے ہیں، سب ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔
راشٹریہ سویم سیوک سنگھ بات بھلے ہندوؤں کی کرے، اس کی تشویش کا اصل مرکز مسلمان ہیں۔ ہندوتوا کے غلبے کا مطلب مسلمانوں اور عیسائیوں کی کمتری ہے۔ ہندوتوا کے سیاسی منصوبے کا مقصد مسلمانوں کی تہذیبی، ثقافتی اور مذہبی زندگی کو کنٹرول اور محکوم بنانا ہے۔ آپ اتنے ہی اور اسی طرح مسلمان ہو سکتے ہیں، جتنا اورجس طرح ہندوتوادی اجازت دیں۔
مراد آباد کا واقعہ کیوں ہوا؟ یہ واقعہ دوبارہ نہ ہو، یہ کیسے ہوگا۔ عام ہندو کہہ سکتے ہیں کہ وہ بجرنگ دل سے کیسے لڑ سکتے ہیں! اس میں ان کی رضامندی نہیں ہے۔ لیکن ہندوؤں میں سے وہ لوگ جنہوں نے بھارتیہ جنتا پارٹی کو ووٹ دیا ہے وہ اس واقعے کے لیے ذمہ دار ہیں۔ کیونکہ ایسے واقعات صرف بھارتیہ جنتا پارٹی کی سیاست اور اس کی حکمرانی کی وجہ سے ہو رہے ہیں۔
ایسے قوانین، ایسے انتظامی احکامات اور ایسی کھلی غنڈہ گردی کے بغیر اس سیاست کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے ایک عام ہندو کو ، اس میں بھی بی جے پی کے ووٹر کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ کیا خاموش تماشائی بن کر اس تشدد میں شریک رہنا ان کو منظور ہے؟ اور اگر نہیں تو بی جے پی کو اقتدار میں لاتے ہوئے وہ خود کو کیسے اس سے الگ کر سکتے ہیں؟
(اپورواننددہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)
Categories: فکر و نظر