ڈاکٹر امبیڈکر نے کہا تھا کہ کوئی بھی آئین برا ہو سکتا ہے اگر اسےعمل میں لانے والے لوگ برے ہوں۔ ان کا یہ قول اس تناظر میں اور زیادہ بامعنی ہو جاتا ہے کہ کس طرح آئینی حقوق کوپامال کرنے کے لیےنوکرشاہی اور ٹرائل کورٹ کی سطح پر عام قوانین کااستعمال یا غلط استعمال کیا جارہاہے۔ لوک سبھا سے راہل گاندھی کی رکنیت ختم ہونا اس کی بہترین مثال ہے۔
موجودہ حکومت میں سیاسی پیغام دینےحتیٰ کہ جمہوری احساس کو ختم کرنے کے لیے قانون کو ہتھیار کی طرح استعمال کرنا ایک نوع کی مثالیت پسندی بن چکی ہے۔ قانون کا نفاذ بیوروکریٹس یا ججوں کے توسط سے اس طرح کیا جاتا ہے کہ یہ نظام کو مذاق بناکر رکھ دیتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ کوئی ہائیڈرا–ہیڈیڈ ایکو سسٹم (مسئلے کے حل کی کوئی کارروائی جب مسئلے کو ہی بڑھانے لگے) موجودہ قوانین اور طریقہ کار کو متعصب طریقے سے استعمال کرتے ہوئے آئینی جمہوریت کی روح کو پامال کرنے کے لیے 24×7 کام کر رہا ہے۔
ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کا مشہور قول ہے؛
آئین کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو، اس کا برا ہونا یقینی ہے کیونکہ جن لوگوں کو اسے اسے نافذ کرنے کے لیے کہا جاتا ہے، وہ بہت برے ہوتے ہیں۔ کوئی آئین کتنا ہی برا کیوں نہ ہو، اگراسےعمل میں لانے والے اچھے ہوں تو وہ اچھا ہو سکتا ہے۔
انہوں نے جو کہا وہ اس تناظر میں اور بھی زیادہ بامعنی ہو جاتا ہے کہ کس طرح آئینی حقوق کو پامال کرنے کے لیےنوکر شاہی اور ٹرائل کورٹ کی سطح پرعام قوانین کواستعمال یا غلط استعمال کیا جاتا ہے۔ لوک سبھا سے راہل گاندھی کی رکنیت کا ختم ہونا اس کی ایک بہترین مثال ہے۔
واقعات کی کرونالوجی بھی بہت واضح ہے۔ 13 اپریل،2019 کو گاندھی نے کرناٹک میں ایک تقریر کی، جس میں انہوں نے پوچھا کہ ‘سب چوروں کے نام میں مودی کیوں ہے؟’ کچھ ہی دنوں کے اندر، گجرات کے بی جے پی کے ایم ایل اے پرنیش مودی نے گجرات کی ایک عدالت میں یہ دلیل دیتے ہوئے ہتک عزت کا مقدمہ دائر کیا کہ گاندھی نے مودی کمیونٹی کو بدنام کیا ہے۔ یہ سب بہ ظاہر 2019 کے لوک سبھا انتخابات کی سرگرمیوں کے درمیان ہو رہا تھا۔ بہرحال عام انتخابات ہوئے اور مودی کو ایک بار پھر زبردست مینڈیٹ ملا۔
شاید مودی کی جیت کے بعد یہ معاملہ سیاسی طور پر کم اہمیت کا حامل رہ گیا۔ لیکن عدالتی کارروائی جاری رہی اور گاندھی نے اپنا پہلا بیان 24 جون 2021 کو سورت میں چیف جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں شخصی طور پر دیا۔ اس موقع پر شکایت کنندہ کی معاملے میں دلچسپی ختم ہوگئی اور انہوں نےٹرائل کورٹ کی کارروائی پر روک لگانے کے لیے ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔
نامورسینئر ایڈوکیٹ کپل سبل نے دی نیو انڈین ایکسپریس میں لکھا ہے، ‘یہ بہت کم ہوتا ہے کہ کوئی قانونی چارہ جوئی کرنے والا، جب تک کہ اسے یقین نہ ہو کہ ٹرائل کورٹ میں اس کے جیتنے کے امکانات کم ہیں، کیس کو روکنے کے لیے ہائی کورٹ جاتا ہے۔
کیس اچانک 27 فروری 2023 کو ایک اور چیف جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے دوبارہ شروع ہوا، جب پرنیش مودی نے ہائی کورٹ میں دائر اپنی درخواست واپس لے لی، جس نے گاندھی کے خلاف نچلی عدالت کی کارروائی پر روک لگا دی تھی۔ سبل کہتے ہیں، ہائی کورٹ میں کارروائی کی فوری طور پر واپسی، مقدمے کی بحالی، کارروائی کا وقت اور کیس کی اچانک سماعت بہت سے سوالات کو جنم دیتی ہے، جن کا جواب مناسب وقت آنےپر مل سکتا ہے۔
واقعات کی ترتیب واضح طور پر بتاتی ہے کہ مقتدرہ سیاست کانچلی عدلیہ کو چلانے کے طریقے میں ایک خاص طرح کا بھروسہ ہے۔ جس آسانی اور اعتماد کے ساتھ قانون ہتھیار بن رہا ہے وہ دیگر معاملات میں بھی نظر آتا ہے، جہاں ایک مضبوط سیاسی پیغام دینا بنیادی مقصد ہے۔ یہ اتنا واضح ہے کہ اب عام شہری بھی اس چال کا واضح اندازہ لگا لے رہےہیں۔
مثال کے طور پر، گزشتہ ہفتے دہلی پولیس نے عوامی املاک کو نقصان پہنچانے سےمتعلق قانون کا استعمال کرتے ہوئے بڑی تعداد میں قومی دارالحکومت کے کئی مقامات پر ‘مودی ہٹاؤ، دیش بچاؤ’ کے پوسٹر لگانے والے لوگوں کو گرفتار کیا۔ جمہوریت میں ایک بالکل درست نعرے کو اس بنیاد پر جرم بنا دیا گیا کہ اس سے عوامی املاک کو نقصان پہنچا!ایک بار پھر جمہوری رائے کو دبانے کے لیے ایک عام قانون کا استعمال کیا گیا۔ اتر پردیش، مدھیہ پردیش، دہلی اور دیگر مقامات پر بلڈوزر کا مسلسل استعمال اسی زمرے میں آتا ہے۔
آخر کار، اپوزیشن جماعتیں تحقیقاتی ایجنسیوں کو ہتھیار بنانے، جو ایسے قوانین کا استعمال کرتی ہیں، جہاں ملزم پر ہی ثبوت کی ذمہ داری ہوتی ہے، کے خلاف سپریم کورٹ جانا ایک آمرانہ اور مطلق العنان حکومت کےرویے کو بے نقاب کرتی ہے۔
سینئر وکیل ابھیشیک سنگھوی کا کہنا ہے کہ اگر لیڈروں کے خلاف درج کیے گئے 95 فیصد سے زیادہ کیس اپوزیشن لیڈروں کے خلاف ہیں تو جمہوریت میں برابری نہیں دکھائی دے رہی ہے۔ یقیناً، بی جے پی اس بات پر اصرار کرتی ہے کہ ‘قانون کو اپنا کام کرنے دیں۔’ زیادہ تر تعقل پسند تجزیہ کار واضح طور پر دیکھ رہے ہیں کہ اس دلیل کے پیچھے گھٹیا پن کی انتہاہے، جو اس بات کا یقین دلاتی ہے کہ غیر اعلانیہ ایمرجنسی نافذ ہے۔
یہ افسوسناک بات ہے کہ اقتدار میں بیٹھے جو لوگ جو امبیڈکر کی عظمت کا قصیدہ پڑھتے کبھی نہیں تھکتے، وہ 1949 میں دستور ساز اسمبلی کے مباحثوں میں ان کی تقریروں کی روح کی کھلم کھلا توہین کر رہے ہیں۔
(اس مضمون کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)
Categories: فکر و نظر