قومی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین اقبال سنگھ لال پورہ کے مطابق، وہ تمام ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ کو خط لکھ کر ان کمیشنوں کے قیام کی درخواست کرتے رہے ہیں، لیکن اب تک کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ صرف 17 ریاستیں اور مرکز کے زیر انتظام علاقے دہلی نے ہی ان کا قیام کیا ہے۔
نئی دہلی: بار بار کی درخواستوں اور یاد دہانیوں کے باوجود جموں و کشمیر سمیت 10 ریاستوں اور سات مرکز کے زیر انتظام علاقوں نے اب تک ریاستی اقلیتی کمیشن کا قیام نہیں کیا ہے۔
قومی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین اقبال سنگھ لال پورہ تمام ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ کو خط لکھ کر ان کمیشنوں کے قیام کی درخواست کررہے ہیں، لیکن اب تک کے اعداد و شمارسے پتہ چلتا ہے کہ صرف 17 ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقے دہلی نے ہی اس کا قیام کیا ہے۔
ٹائمز آف انڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق، حکام نے کہا کہ کمیشن کی کمی واضح طور پر تشویشناک ہے۔
جن ریاستوں نے ابھی تک کمیشن نہیں بنائے ہیں ان میں گجرات، ہریانہ، ہماچل پردیش، اڑیسہ، گوا، اروناچل پردیش، میگھالیہ، میزورم، ناگالینڈ اور تریپورہ شامل ہیں۔
سات مرکز کے زیر انتظام علاقوں – جموں کشمیر، لداخ، چنڈی گڑھ، انڈمان اور نکوبار جزائر، دمن اور دیو اور دادرا اور نگر حویلی، لکشدیپ اور پڈوچیری میں بھی کمیشن نہیں بنائے گئے ہیں۔
اتر پردیش، دہلی، پنجاب، راجستھان، مدھیہ پردیش، اتراکھنڈ، منی پور، آسام، بہار، جھارکھنڈ، چھتیس گڑھ، مغربی بنگال، مہاراشٹرا، آندھرا پردیش، تلنگانہ، کرناٹک، تمل ناڈو اور کیرالہ میں ریاستی اقلیتی کمیشن قائم کیے گئے ہیں۔
ٹائمز آف انڈیا سے بات کرتے ہوئے لال پورہ نے کہا، یہ تشویش کی بات ہے، لیکن میں ان ریاستوں پر دباؤ ڈالتا رہتا ہوں جنہوں نے ابھی تک کمیشن نہیں بنائے ہیں۔
دسمبر 2022 میں وزرائے اعلیٰ کو لکھے ایک خط میں لال پورہ نے کہا تھا، ‘یہ ایک حقیقت ہے کہ ہر ریاست میں حکومت کی طرف سے نوٹیفائیڈ اقلیتوں کو ان مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو ان کی فلاح و بہبود کے ساتھ ساتھ ان کی ترقی کو بھی متاثر کرتے ہیں۔ یہ طویل عرصے سے محسوس کیا جا رہا ہے کہ اقلیتوں کے قومی کمیشن کے علاوہ، ریاستی سطح پر فوری اور ضرورت پر مبنی مداخلت کے لیے ہر ریاست کا اپنا اقلیتی کمیشن ہونا چاہیے۔
انہوں نے ریاستوں پر درخواست کی کہ وہ جلد از جلد اس کوقائم کریں۔
قومی کمیشن برائے اقلیتی قانون، 1992 کا مقصد نوٹیفائیڈاقلیتوں یعنی مسلمانوں، عیسائیوں، سکھوں، بدھسٹوں، جینوں اور پارسیوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے قومی سطح پر ایک ادارہ جاتی سسٹم کو یقینی بنانا ہے۔
Categories: خبریں