خبریں

یوپی کی طرح مدھیہ پردیش میں بھی مدارس کا سروے، وزیراعلیٰ نے کہا – انتہا پسندی برداشت نہیں کریں گے

وزیر اعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان نے کہا کہ انتہا پسندی کی تعلیم دینے والے غیر قانونی مدارس اور اداروں کا جائزہ لیا جائے گا۔ ریاست میں کسی بھی قسم کی انتہا پسندی اور شدت پسندی کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ انہوں نے ایسے اداروں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کی ہدایات بھی دی ہیں۔

شیوراج سنگھ چوہان۔ (فوٹو بہ شکریہ: ٹوئٹر)

شیوراج سنگھ چوہان۔ (فوٹو بہ شکریہ: ٹوئٹر)

نئی دہلی: مدھیہ پردیش کے وزیر اعلی شیوراج سنگھ چوہان نے اعلیٰ حکام کو ہدایت دی ہے کہ وہ اتر پردیش کی طرح ریاست میں بھی مدارس کا سروے کریں۔ یہ بھی کہا کہ ریاست میں شدت پسندی کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔

بدھ (19 اپریل) کو وزیر اعلیٰ نے ریاست میں امن و امان کے حوالے سے ایک میٹنگ کی۔ اس دوران انہوں نے اچھا کام کرنے والے پولیس اہلکاروں اور افسران کو مبارکباد دی۔ اس کے ساتھ ہی انتہا پسندی کی تعلیم دینے والے غیر قانونی مدارس اور اداروں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کی بھی ہدایات دی گئیں۔

دینک بھاسکر کے مطابق وزیر اعلیٰ نے خود اس بات کی جانکاری دیتے ہوئے بدھ کو  بتایا کہ غیر قانونی مدارس اور ان اداروں کا جائزہ لیا جائے گا جو انتہا پسندی کی تعلیم دیتے ہیں۔ ریاست میں کسی بھی قسم کی انتہا پسندی اور شدت پسندی کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔

امن و امان کے جائزہ کے دوران انہوں نے سوشل میڈیا پر گمراہ کن خبروں، ناشائستہ مواد اور متعصبانہ خیالات والی پوسٹ پر کڑی نظر رکھنے اور فوری ایکشن لینے کی ہدایت دی۔

مدرسہ بورڈ کے مطابق، ریاست بھر میں2689 مدارس کام کر رہے ہیں، جبکہ ان میں سے صرف 1755 کے پاس ہی  ڈائس کوڈ اورمنظوری ہے۔ ڈسٹرکٹ پروجیکٹ کوآرڈینیٹر کے دفتر کے مطابق، بھوپال میں ایسے 479 مدارس ہیں۔

اخبار کے مطابق، ریاست میں ایسے مدارس کی ایک بڑی تعداد چل رہی ہے، جن کا کہیں بھی الحاق نہیں ہے۔ پہلے مدارس کو مرکز سے گرانٹ ملتی تھی لیکن 2014 کے بعد گرانٹ بند ہو گئی کیونکہ مدارس کے خلاف بہت سی شکایات موصول ہو رہی تھیں۔

گزشتہ سال اکتوبر میں مدھیہ پردیش چلڈرن کمیشن نے ودیشا میں مدرسہ مریم کا معائنہ کیا تھا۔ وہاں کے 37 بچوں میں سے 21 ہندو اور 5 قبائلی تھے۔ 5 اساتذہ میں سے کسی کے پاس یو جی–پی جی یا بی ایڈ کی ڈگری نہیں تھی۔

اس کے علاوہ گزشتہ سال جون میں بھوپال کے دو مدرسوں میں بہار سے لائے گئے بچے ملے تھے۔ چلڈرن کمیشن نے اشوکا گارڈن اور نایل کھیڑا میں چل رہے دو غیر قانونی مدرسوں کو بند کر وایا تھا۔

چند ماہ قبل بان گنگا میں چلنے والے دو مدارس میں دوسری ریاستوں سے بچوں کو لانے کی شکایت بھی موصول ہوئی تھی۔ دتیا کے عربیہ مدرسہ میں 26 ہندو بچے اسلامی تعلیم حاصل کرتے ہوئے پائے گئے۔

امر اجالا کے مطابق بی جے پی کے ریاستی صدر وی ڈی شرما نے حکومت کے غیر قانونی مدارس پر نظرثانی کے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔

انہوں نے کہا، ‘صرف مدارس ہی نہیں، سب کا جائزہ لیا جانا چاہیے۔  ہوا بھی ہے۔ مدارس کاکیوں نہیں ہونا چاہیے؟ ہاسٹلز کا بھی جائزہ لیتے رہتے ہیں۔ حکومت نے اچھا فیصلہ کیا ہے۔ مدارس کے اندر کیا ہو رہا ہے،پڑھائی  کے نام پر تعلیم دی جا رہی ہے۔ ایسے میں ہر جگہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔

غیر قانونی مدارس پر بلڈوزر چلانے کے سوال پر انہوں نے کہا کہ ایسا ضرور ہونا چاہیے۔

اس کے ساتھ ہی کانگریس نے الزام لگایا کہ مدرسہ بورڈ کو 15 سالوں میں اپاہج بنا دیاگیا ہے۔ کانگریس میڈیا ڈپارٹمنٹ کے نائب صدر عباس حفیظ نے وزیر اعلیٰ کے غیر قانونی مدارس کےبیان پر جوابی حملہ کیا۔

انہوں نے کہا، ‘جب حکومت 20 سال اقتدار میں رہنے کے بعد صحت، تعلیم، روزگار، مہنگائی جیسے مسائل پر ناکام ہو جاتی ہے تو پھر الیکشن جیتنے کے لیے ہندو مسلم کے علاوہ کوئی فارمولہ نہیں بچا۔ گزشتہ 15 سالوں میں مدھیہ پردیش مدرسہ بورڈ کو اپاہج کرنے والے وزیر اعلیٰ آج مدرسہ کی بات کر رہے ہیں۔ آج ریاست میں مدرسہ بورڈ مکمل طور پر بند ہے۔ ملازمین کو مہینوں تنخواہ نہیں ملتی۔ تعلیم نہیں ہے۔ طلباء کی تعداد مسلسل کم ہو رہی ہے۔ فنڈز نہیں دیے جاتے لیکن آج اسے مدرسہ یاد آگیا کیونکہ الیکشن جیتنا ہے۔

اس پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے مدھیہ پردیش کانگریس کمیٹی کے ترجمان کے کے مشرا نے کہا، وزیر اعلیٰ نے ہدایت دی کہ غیر قانونی مدارس اور اداروں کا جائزہ لیا جائے، جہاں انتہا پسندی کی تعلیم دی جا رہی ہے۔اسے یہ سمجھنے میں 18 سال لگ گئے۔ اس کا مطلب ہے کہ مدھیہ پردیش میں انٹلی جنس ناکام ہو گئی ہے۔

چوہان کو نشانہ بناتے ہوئے مشرا نے کہا، ‘آپ ایک وکا س پُرش  ہیں۔ برائے مہربانی وکاس  پر ووٹ مانگیں۔ یہ  مندر، مسجد، مدرسہ، قبرستان اور شمشان کی بات کیوں کر رہے ہیں؟ کیا وزیر اعلیٰ انتہا پسندی کی بات کرنے والے بی جے پی لیڈروں کے خلاف کارروائی کریں گے؟

غور طلب ہے کہ ملک کی تمام ریاستوں میں جہاں بی جے پی کی قیادت والی حکومتیں ہیں، وہاں  مدارس کے حوالے سے اکثر رہنما خطوط جاری کیے جاتے ہیں۔

اتر پردیش میں یوگی آدتیہ ناتھ کی بی جے پی حکومت نے بھی 31 اگست 2022 کو ریاست کے غیر تسلیم شدہ مدارس میں بنیادی سہولیات کی صورتحال کو جانچنے کے لیے ایک سروے کرانے کا فیصلہ کیا تھا۔

اس کے چند ماہ بعد اکتوبر 2022 میں اتراکھنڈ میں پشکر سنگھ دھامی کی قیادت والی  بی جے پی حکومت نے مدارس کو حکم دیا کہ وہ ایک ماہ کے اندر ریاستی محکمہ تعلیم کے ساتھ خود کو رجسٹر کریں ورنہ بندش کا سامنا کرنے کو تیار رہیں۔

اس سال جنوری میں وزیر اعلیٰ ہمنتا بسوا شرما نے کہا تھا کہ مدارس میں پڑھانے والے آسام کے باہر کے اساتذہ کو باقاعدگی سے تھانوں میں حاضر ہونا پڑے گا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ آسام پولیس مسلمانوں کے ساتھ مل کر مدرسہ کی تعلیم کو ‘منطقی’ بنانے کے لیے کام کر رہی ہے۔

گزشتہ مارچ میں آسام کے وزیر اعلیٰ ہمنتا بسوا شرما نے کہا تھا کہ وہ ریاست کے تمام مدارس کو بند کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ پہلے ہی 600 مدارس بند کر چکے ہیں۔