خبریں

’سینگول‘ کو نہ کبھی واکنگ اسٹک کے طور پر پیش گیا گیا، اور نہ ہی آنند بھون میں رکھا گیا

فیکٹ چیک: میڈیا میں نشرہونے والی خبروں میں کہا گیا ہے کہ ‘سینگول’ کا تعارف پیش کرتے ہوئے اسے ‘نہرو کی واکنگ اسٹک’ کہا گیا تھا۔ تاہم، ایک عامیانہ سی تحقیق سے پتہ چل جاتا ہے کہ یہ دعویٰ  فرضی ہے۔

نئے پارلیامنٹ ہاؤس میں 'سینگول' لے  جاتے وزیر اعظم نریندر مودی۔ (فوبہ شکریہ: پی آئی بی)

نئے پارلیامنٹ ہاؤس میں ‘سینگول’ لے  جاتے وزیر اعظم نریندر مودی۔ (فوبہ شکریہ: پی آئی بی)

نئی دہلی: 28 مئی کو پارلیامنٹ میں قائم کیے گئےسینگول کے حوالے سے میڈیا میں آئی رپورٹس کے برعکس کہ سینگول کا غلط تعارف ‘جواہر لال نہرو کی واکنگ اسٹک’ کے طور پر پیش  کیا گیا تھا، الہ آباد میوزیم کے ریٹائرڈ کیوریٹر ڈاکٹر اونکار آنند راؤ وانکھیڑے نے دی وائر کو بتایا کہ اترپردیش  کے الہ آباد میوزیم میں جو چیزنمائش کے لیے رکھی گئی تھی، اس  کے تعارف میں صرف یہ لکھاگیا تھا کہ ،’پنڈت جواہر لال نہرو کو تحفے میں دی گئی سنہری چھڑی’، اس میں نہ تو  نہرو کا کوئی ذکر تھا اور نہ ہی واکنگ اسٹک کا، جیسا کہ بی جے پی دعویٰ کر رہی ہے۔

انہوں نے مزید کہا، بی جے پی جھوٹا دعویٰ کر رہی ہے کہ اس چھڑی کے تعارف میں’نہرو کی واکنگ اسٹک’ لکھا  گیا تھا۔ یہاں تک کہ اس کی تفصیلات میں جواہر لال نہرو کا لفظ بھی نہیں لکھا گیا تھا۔

یہ چھڑی ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم کے ذخیرے کے حصے کے طور پر الہ آباد میوزیم میں رکھی گئی تھی۔ وانکھیڑے کہتے ہیں،’کسی چیز کی وضاحت کرنا کیوریٹر کا کام نہیں ہے۔ ہمارا کام صرف دکھائے گئے مواد کے بارے میں بتانا ہے۔ اور اس لیے سینگول کو ‘سنہری اسٹک’ کے طور پر متعارف کرایا گیا تھا۔ تشریح وتوضیح کا کام مؤرخ یا دوسرے ماہرین کو کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے پہلے کیوریٹر اور آنجہانی ڈائریکٹر ایس سی کالا نے، جنہیں 1948-52 کے درمیان یہ تحفے میں ملے تھے،  اس چھڑی کو سنہری چھڑی کے طور پر متعارف کرایا۔ تب سے یہ اسی نام سے تمام سرکاری دستاویزوں میں درج ہے۔

سینگول کو 4 نومبر 2022 کو الہ آباد میوزیم اور دہلی میں نیشنل میوزیم کے درمیان ایم او یو کے بعد نیشنل میوزم  کے حوالے کیا گیا تھا۔ اس کے لیے اتر پردیش کی گورنر آنندی بین پٹیل کی رضامندی لی گئی تھی، جو الٰہ آباد میوزیم کی سابق چیئرپرسن ہیں۔ سینگول کواسی  الہ آباد میوزیم میں رکھا گیا تھا، نہ کہ نہرو-گاندھی فیملی کے آبائی گھر آنند بھون میں۔

آنند بھون سے نہیں لیا گیاسینگول

سنیچر کے جشن کے فوراً بعد ادھینموں سے خطاب کرتے ہوئےوزیر اعظم نریندر مودی نے دہرایا، ‘سینگول کو پریاگ راج کے آنند بھون میں واکنگ اسٹک کے طور پر دکھایا گیا تھا…یہ حکومت اسے آنند بھون سے باہر لے  کرآئی ہے۔’

حقیقت یہ ہے کہ 4.6 فٹ لمبے سینگول کو نیشنل میوزیم سے پارلیامنٹ کے نئے احاطے میں لایا گیا۔ نیشنل میوزیم میں یہ نومبر 2022 سے رکھا گیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ نومبر میں ایک تقریب کے بعد اسے نیشنل میوزیم کے حوالے کرنے سے پہلے ایک پروپیگنڈہ فلم کی شوٹنگ کے لیے الہ آباد سے بنگلورو منتقل کیا گیا تھا۔ اس فلم کو کئی سرکاری ہینڈلز نے شیئر کیا ہے۔

حقائق پر مبنی نہیں ہےحکومت کا ویڈیو

اگر آپ فلم کے آغاز میں ‘ڈس کلیمر’ کو غور سے دیکھیں تو یہ فلم تاریخی حقائق پر مبنی ہونے کا دعویٰ نہیں کرتی ہے۔ اس میں صرف یہ کہا گیا ہے کہ ‘یہ ویڈیو اگست 1947 میں پیش آنے والے واقعات کی ڈرامائی پیش کش ہے’۔ ان واقعات کو ہندوستانی اور بین الاقوامی میڈیا نے بڑے پیمانے پر رپورٹ کیا اور کتابوں میں بھی درج کیا گیا۔ یہ ویڈیو انہی  رپورٹس پر مبنی ہے۔

یہ ویڈیوآئی جی این سی اے نے تیار کیا ہے اور حتیٰ کہ سینگول کی اپنی ویب سائٹ بھی ہے – ‘سینگول 1947آئی جی این سی اےڈاٹ ان– جہاں بڑے بڑےحروف میں ‘گورنمنٹ آف انڈیا’ (حکومت ہند) لکھا ہوا نظر آتا ہے۔

موجودہ دور میں تاریخ کی ‘ڈرامائی پیش کش’ بی جے پی کے مطابق سنیچر کو وزیر اعظم نریندر مودی کے استقبال اور انہیں آشیرواد  دینے کے لیے 20 پجاریوں یا ادھینموں کی آمد کے ساتھ شروع ہوا۔ جہاں  نہرو کوایک  سینگول دیا گیا تھا، وہیں ادھینموں  نے مودی کا استقبال ایک نہیں بلکہ کئی سینگولوں سے کیا۔

آئی جی این سی اے کے ممبر سکریٹری سچیدانند جوشی کے مطابق، ادھینموں نے 27 مئی کو ایک تقریب میں اپنی روایات کے مطابق وزیر اعظم کا استقبال کیااور ان میں سے کچھ نے انہیں تحفے کے طور پرسینگول پیش کیا۔

دوسرے لفظوں میں کہیں تو، نہرو کو ملا اصلی سینگول ادھینموں کی جانب سے  مودی کو تحفے کے طور پر دیے گئے کئی سینگولوں میں سے ایک نہیں تھا،جیسا کہ میڈیابتا رہا ہے۔ اس دوران اصل سینگول کو نیشنل میوزیم میں محفوظ رکھا گیا تھا۔

ویڈیو کے حساب سے دیکھیں تو، اس میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ سینگول کو ایک خصوصی طیارے میں مدراس سے دہلی لایا گیا تھا۔ 1947 کی ٹائم میگزین اوردیگر میڈیا رپورٹس سے پتہ چلتا  ہے کہ ادھینم ہوائی جہاز سے نہیں بلکہ ٹرین کے ذریعے آیا تھا، جیسا کہ  دی وائر نے پہلے بتایا تھا۔ اس بات میں بھی کوئی سچائی نہیں ہے کہ یہ سینگول سب سے پہلے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو ‘اقتدار کی منتقلی کے لیے’ دیا گیا تھا۔ ٹائم میگزین میں 25 اگست 1947 کو ہندوستان کی آزادی کے جشن کے حوالے سے ایک مضمون میں درج ذیل باتیں کہی گئی ہیں؛


جواہر لعل نہرو جیسا ملحد شخص بھی آزاد ہندوستان کا پہلا وزیر اعظم بننے کے موقع پر مذہبی جذبات پر قابو نہ رکھ سکا۔ جنوبی ہندوستان کے تنجور سے ہندو سنتوں کے سنیاسی فرقے کے سربراہ شری امبالاوانہ دیسیگر کے دو قاصدآئے ۔ امبالاوانا کو لگا کہ ایک حقیقی ہندوستانی حکومت کے پہلے ہندوستانی سربراہ کے طور پر نہرو کو کسی قدیم بادشاہ کی طرح، ہندو سنتوں  کے ہاتھوں اقتدار طاقت کی علامت کو قبول کرنا چاہیے۔

قاصدوں کے ساتھ ایک خاص طرح کی ہندوستانی بانسری ننداسرم کے مشہور بانسری نواز بھی آئے۔ دوسرے سنیاسیوں کی طرح، جو اپنے بال نہیں کاٹتے اور نہ ہی کنگھی کرتے ہیں، ان دونوں قاصدوں کے بال لمبی جٹا کی طرح ان کے سر کے چاروں طرف بندھے ہوئے تھے۔ ان کے ننگے سینے اور پیشانی کو شری امبالاوانہ کی طرف سے منگوائی گئی مقدس راکھ سے پوتا گیا تھا۔ ایک قدیم روایت کی طرح 14 اگست کی شام کو انہوں نے نہرو کی رہائش گاہ کی طرف رسمی طریقے سےآہستہ آہستہ چلنا شروع کیا۔ سب سے  آگے بانسری نوازتھے، جو ہر 100 قدم کے بعد رک جاتے تھے اور سڑک پر بیٹھ کر 15 منٹ تک اپنی بانسری بجاتے تھے۔ ساتھ میں چلنے والے ایک اور شخص کے ہاتھ میں چاندی کی ایک بڑی پلیٹ تھی۔ اس پلیٹ میں مہنگے ریشمی کپڑے کا پتامبرم (خدا کا لباس) تھا جس پر سونے کی زری کا کام کیا ہوا تھا۔

آخر کار جب یہ قافلہ نہرو کے گھر پہنچا تو بانسری نواز نے بانسری بجائی اور اس دوران سنیاسی نہرو کی دعوت کا انتظار کرتے رہے۔

اس کے بعد وہ بصد احترام گھر کے اندر داخل ہوا، ان کے ساتھ چلنے والے دو لڑکے ہرن کے بالوں کے خصوصی پنکھ ہلا رہے تھے۔ ایک سنیاسی کے ہاتھ میں 5 فٹ لمبا اور دو انچ موٹا عصا تھا۔ اس نے تنجور سے لایا ہوا مقدس پانی نہرو پر چھڑکا اور نہرو کے ماتھے پر مقدس بھبھوت کا تلک لگایا۔ اس کے بعد انہوں نے نہرو کو پتامبرم اوڑھایا اور  انہیں عصا دیا۔ اس کے ساتھ ہی  انہوں نے نہرو کو وہ پکا ہوا چاول بھی دیا جو اس دن جنوبی ہندوستان میں نٹ راج کو پرساد کے طور پرپیش کیا گیا تھا اور ہوائی جہاز سے دہلی لایا گیا تھا۔


(اس  رپورٹ  کوانگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)