ہمارے بارے میں

کارپوریٹ گھرانے اور خاندانی وراثت کی پہچان بن چکے میڈیا اداروں کے درمیان خبروں اورتجزیے کے لیے کسی ایسے پلیٹ فارم  کا تصور کیا جا سکتا ہے، جہاں صحافت اور قارئین کو صدگونہ اہمیت حاصل ہو؟ کسی ایسے اخبار، ٹیلی ویژن چینل یا نیوزویب سائٹ کے بارے میں سوچا جا سکتا ہے — جہاں مدیر صحافیوں کی تقرری اور خبروں کی کوریج جیسے فیصلے اول و آخر صحافتی اقدار کی سلامتی کو ذہن میں رکھ کر لیتا ہو، ادارہ کے مالک، کسی رہنما یا مشتہرین کی خوشنودی سے اسے دور کا بھی واسطہ نہ ہو؟ کسی بھی جمہوری معاشرے میں قارئین اور ناظرین میڈیا سے اتنی توقع تو کرتے ہی ہیں، لیکن آج دنیا کی  سب سے بڑی جمہوریت میں مدیر کے لیے اس نوع کی صحافتی آزادی محال ہے۔

خبروں کی کتربیونت اور غیر ضروری طور پر ترمیم و تحریف کے علاوہ پیڈ نیوزیا خبروں کی نشر و اشاعت میں تعلقات کو ترجیح دینا وغیرہ بعض ایسےپہلو ہیں جو صحافتی اقدار کو پامال کر رہے ہیں۔ ہر دن صحافت کا معیار گرتا جا رہا  ہے۔ میڈیا ادارے اب خبروں اور حقائق تک پہنچنا نہیں چاہتے، اس کے برعکس وہ صحافت کی آڑ میں کاروباری  معاہدے میں دلچسپی رکھتے ہیں، بعض اہم اطلاعات اور خبریں عوام تک پہنچتی ہی نہیں ہیں کیونکہ عصری میڈیا کسی فرد خاص یا کسی ادارے کو فائدہ پہنچانے کی غرض سے صحافتی اقدار کا سودا کر نے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ عوام الناس کو اس حقیقت کا ادراک ہونے لگا ہے۔ حالات یہ ہیں کہ  وہی میڈیا جو جمہوریت کا’چوتھا ستون‘ خیال کیا جاتا ہے، تیزی سے اپنا اعتبار کھوتا جا رہا ہے۔

کئی معنوں میں زوال پذیر صحافت کے اس منظرنامے میں تعمیری، تخلیقی اور مثبت سوچ کے ساتھ مئی، 2015 میں ’دی وائر‘ کا اجرا کیا گیا۔ اب اسی مقصد کی توسیع کرتے ہوئےاُردو ایڈیشن کا بھی اجرا کیا گیا ہے۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ اگر صحافت اور صحافتی اقدار کا تحفظ ضروری ہے تو مدیرانہ اور اقتصادی آزادی کو ممکن بنانا ہوگا۔ اور اس کا ایک ہی طریقہ ہے کہ عوام الناس کو اس عمل میں شریک کیا جائے۔ چنانچہ جو بھی اس نوع کی صحافت کے تحفظ کے خواہاں ہیں، حقائق  تک پہنچنا چاہتے ہیں اور متمنی ہیں کہ خبروں  کو صاف گوئی سے پیش کیا جائے اور اس میں  کسی طرح کی مصلحت پسندی سے کام نہ لیا جائے تو وہ اس کو ممکن بنانے کے لیے آگے آئیں اور ایسے اداروں کو زندہ رکھنے میں ہر ممکن تعاون کریں۔

ایک ادارے کی شکل میں’دی وائر‘ کا اُردو ایڈیشن مفاد عامہ اور جمہوری اقدار کے مطابق چلنے کے لیے پابند عہد ہے۔ خبروں کی صداقت، حالات حاضرہ کا تجزیہ اور تنقیدی اپروچ کے علاوہ ہمارا مقصد رپورٹنگ کے روایتی تصور کوزندہ رکھنا بھی ہے۔ جیسے جیسے ہمارے وسائل میں اضافہ ہو‌گا، ہم زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچنے کی کوشش کریں‌ گے۔

صحافت کے اس تصور کی تکمیل میں ضروری وسائل کی عدم دستیابی ہی واحد رکاوٹ ہے۔ اس لیے قارئین اور ناظرین سےعاجزانہ درخواست ہے کہ ہماری ویب سائٹ پر تشریف لائیں، خبروں اور تجزیے کو شیئر کریں اور اس کو خوب سے خوب تر بنانے کے لیے اپنے بیش قیمتی مشوروں اور آراء سے نوازیں۔

دی وائر اُردو ٹیم

فیاض احمد وجیہہ دی وائر اردو کے اسسٹنٹ ایڈیٹر ہیں ۔دی وائر سے پہلے وہ ریختہ ڈاٹ او آرجی سے وابستہ رہے ہیں ۔ اس کے علاوہ ذہن جدید،جدید ادب اور تسطیر جیسے مختلف ادبی رسائل میں ان کے مضامین اور افسانے شائع ہوئے ہیں۔ان سے  FaiyazWajeeh@ پررابطہ کیا جاسکتا ہے۔

بانی مدیران

سدھارتھ وردراجن ،دی  وائر کے بانی مدیران  میں سے ایک ہیں۔ سدھارتھ دی  ہندو کے مدیر رہ چکے ہیں۔صحافت کے میدان  میں دیے جانے والے  رام ناتھ گوینکا ایوارڈ سے نوازے جا چکے سدھارتھ نیویارک یونیورسٹی میں معاشیات اور یونیورسٹی آف کیلی فورنیا میں صحافت  بھی پڑھا چکے ہیں۔ وہ ٹائمس آف انڈیا اور شیو نادر یونیورسٹی کے سینٹر فار پبلک افیئرس اینڈ کریٹکل تھیوری سے بھی جڑے رہے ہیں۔ ان سے@svaradarajan پر رابطہ سکتے ہیں۔

سدھارتھ بھاٹیہ،صحافی  اور قلمکار ہیں۔ یہ دی  وائر کے بانی مدیران  میں سےایک ہیں۔ ممبئی میں رہنے والے سدھارتھ لگ بھگ تین دہائی  سے صحافت  کے میدان  میں فعال ہیں۔ وہ 2005 میں انگریزی روزنامہ ڈی این اے کو لانچ کرنے والے مدیران میں سے ایک تھے اور اخبار کے ایڈیٹوریل  اور فکرونظر سیکشن کی ذمہ داری اٹھاتے تھے۔ سدھارتھ سیاست، سماج اور ثقافت سےمتعلق موضوعات  پر لکھتے ہیں۔ کیمبرج یونیورسٹی کے وولفسن کالج کے ایسوسی ایٹ پریس فیلو سدھارتھ کی پہلی کتاب انڈیا سائکیڈیلک: دی  اسٹوری آف راکنگ جنریشن تھی، جو 60-70 کے دہائی میں ہندوستان  پہنچے راک میوزک کے پس منظرمیں اس وقت کے نوجوانوں  کی کہانی کہتی ہے۔ ان سے@bombaywallahپر رابطہ کرسکتے ہیں۔

ایم کے وینو، د ی وائر کے تیسرے بانی مدیر ہیں۔ سیاست اور معاشیات پر لکھتے ہیں اور دودہائی  سے زیادہ سے صحافت  سے وابستہ ہیں۔ وینو دی  اکانومک ٹائمس، دی فائننشل ایکسپریس اور دی  ہندو سے جڑے رہے ہیں۔ 1991 میں ہندوستان  کی لبرل معاشی پالیسی کے آنے کے بعد سے وینو لگاتار ملک کی معیشت کے بارے میں لکھتے رہے ہیں۔ کئی مؤقر روزناموں  جیسے د ی اکانومک ٹائمس، دی فائننشل ایکسپریس اور د ی انڈین ایکسپریس کے ایڈیٹوریل  کے لیے بھی وہ باقاعدگی سے کالم لکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ راجیہ سبھا ٹی وی کے لیے اسٹیٹ آف د ی اکانومی نام کا ایک پروگرام  بھی ہوسٹ کرتے ہیں۔ کئی پارلیامانی کمیٹیوں کے ذریعے انہیں عوامی پالیسی  سے جڑے مسئلوں پر رائے دینے کے لیے بھی مدعوکیا جاتا ہے۔ ان سے@mkvenu1پررابطہ سکتے ہیں۔