ہندوستان کے لیے گجرات کے انتخابی نتائج کے نظریاتی مضمرات بہت سنگین ہوں گے۔ مسلمان اور عیسائی مخالف نفرت اور تشدد گجرات کے باہر بھی شدت اختیار کریں گے۔ مزدوروں، کسانوں، طلبہ وغیرہ کے حقوق کو محدود کرنے کے لیے قانونی طریقے اپنائے جائیں گے۔ آئینی اداروں پر بھی دباؤ بڑھے گا۔
‘معافی ویر’ کہہ کر ساورکر کو تمسخر کا نشانہ بنانے کے بجائےہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم ساورکر واد (ازم) کے معنی ومفہوم پر بات کریں۔ اگر وہ کامیاب ہو ا تو ہم سب انتخابات کے ذریعے راجا کا انتخاب کرتے رہیں گے اور ہمیں فرمانبردار رعایا کی طرح اس کے ہر حکم کی تعمیل کرنی ہوگی۔
صلاحیت کی وجہ سےمواقع ملتے ہیں۔ یہ جملہ غلط ہے۔ یہ کہنا درست ہے کہ موقع ملنے سے صلاحیت نمایاں ہوتی ہے۔ صدیوں سے جنہوں نے تمام مواقع اپنے لیےمحفوظ کر رکھے ہیں، وہ اپنی صلاحیتوں کو فطری اور قدرتی تصور کرنے لگے ہیں۔ وہ نت نئی چالیں اور ترکیبیں ایجاد کرتے ہیں کہ جمہوریت کی وجہ سے جو مواقع ان سے لے لیے گئے ہیں، وہ پھر سے ان کو واپس ان کو مل جائیں۔
رشی سنک کا وزیر اعظم بننا برطانیہ کے لیےضرور ایک قابل فخر لمحہ ہے، کیونکہ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس نے ‘بیرونی لوگوں’ کے ساتھ دوستی میں بڑی ترقی حاصل کرلی ہے۔ اس میں ہندو مذہب یا اس کے پیروکاروں کا کوئی خاص کمال نہیں ہے۔ یہ کہنا کہ برطانیہ کو بھی ہندو مذہب کا لوہا ماننا پڑا، احساس کمتری کا اظہار ہی ہے۔
عدالتوں میں انصاف اب استثنائی بنتا جا رہا ہے، بالخصوص جب انصاف مانگنے والے مسلمان ہوں یا مودی حکومت کے ناقدین ہوں یا پھر مخالفین۔
موہن بھاگوت نے کسی بھی برادری کا نام لیے بغیر ملک میں برادریوں کے درمیان آبادی کے بڑھتے ہوئے عدم توازن پرتشویش کا اظہارکیا۔ سنگھ شروع سے ہی اشاروں میں بات کرتا رہا ہے۔ اس سے وہ قانون کی گرفت سے بچتا رہا ہے۔ ساتھ ہی اشاروں کی زبان کی وجہ سے دانشور حضرات بھی ان کے دفاع میں کود پڑتے ہیں، جیسا کہ اس وقت سابق الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی کر رہے ہیں۔
ایران میں اگر گشتی دستے زبردستی حجاب پہنا رہے ہیں ہیں توہندوستان میں سرکاری گشتی دستے زبردستی حجاب اتار رہے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ ایران میں اسلامی حکومت مسلمانوں کو اپنے حساب سے پابندکرنا چاہتی ہے اور ہندوستان میں ایک ہندو حکومت مسلمانوں کو اپنے قاعدوں میں قید کرنا چاہتی ہے۔
گیان واپی کیس میں بنارس کی عدالت نے ابھی صرف یہ کہا ہے کہ ہندو خواتین کی عرضی قابل غور ہے۔ میڈیا اس فیصلے کو ہندوؤں کی جیت قرار دے کر مشتہر کر رہی ہے۔ اس سے آگے کیا ہوگا ،یہ صاف ہے۔ وہیں اتر پردیش کے نائب وزیر اعلیٰ متھرا کی دھمکی بھی دے رہے ہیں۔
جگہ–جگہ قبرستان اور عیدگاہ کی زمین پر کبھی پیپل لگا کر، کبھی کوئی مورتی رکھ کر اور بھجن آرتی کا سلسلہ شروع کر کے قبضہ کرنےکےحربے زمانے سے استعمال ہورہے ہیں۔ اب حکومتیں بھی اس میں تندہی سے مصروف ہیں۔لطف کی بات یہ ہے کہ اگر مسلمان اس کی مخالفت کریں تو انہیں عدم روادارکہا جاتا ہے۔
ساورکر نے اپنی کتاب ‘6 گورو شالی ادھیائے ‘ میں ریپ کو سیاسی ہتھیار کے طور پر جائز ٹھہرایا تھا۔ آزاد ہونے کے بعد ایک مجرم نے کہابھی کہ ان کو ان کے سیاسی نظریے کی وجہ سے سزا دی گئی۔ وہ شاید یہ کہنے کی کوشش کر رہے ہوں کہ انھوں نے کوئی جرم نہیں کیا تھا، صرف ساورکر کے سیاسی نظریے کی پیروی کی تھی ۔
ادے پور میں بہیمانہ قتل کے باوجود اس پروپیگنڈے کو قبول نہیں کیا جا سکتا کہ ہندو خطرے میں ہیں۔ اس قتل کے بہانے جو لوگ مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلا رہے ہیں، وہ قتل و غارت گری اور تشددکے پیروکار ہیں۔ یہ سمجھنا ہوگا کہ ایک منصوبہ بند سازش چلائی جارہی ہے کہ کسی ایک واقعہ پر ہندو اورمسلمان ایک ساتھ ایک آواز میں نہ بول پائیں۔
ویڈیو: اگنی پتھ سے لے کر سی اے اے، زرعی قانون اور نوٹ بندی کی وجہ سے ملک میں احتجاجی مظاہروں کے سلسلے میں مودی کی حکومت کے بارے میں دی وائر کے بانی ایڈیٹر سدھارتھ وردراجن اور دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر اپوروانند کی بات چیت۔
بی جے پی کی آٹھ سالہ حکومت نے ایک بڑی آبادی ایسی پیدا کی ہے جو مانتی ہے کہ پارٹی لیڈر کے بگڑے بول کی وجہ سے ہوئی بین الاقوامی شرمندگی کے لیے پارٹی کے ‘شعلہ بیاں مقرر’ ذمہ دار نہیں ہیں، بلکہ وہ لوگ ذمہ دار ہیں جو اس موضوع پر اتنی دیر تک چرچہ کر تے رہے کہ بات ہندوستان سے باہر پہنچ گئی۔
گیان واپی مسجد میں شیولنگ کے نمودار ہوجا نے کو جو معجزہ سمجھ رہے ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہ جھوٹ ہے۔ ‘بابا پرکٹ ہوئے مسجد میں’، ایسا کہنے والے مذہبی ہوں نہ ہوں، وہ تجاوزات کےمجرم لازماًہیں۔
یوپی، مدھیہ پردیش، گجرات اور اب دہلی میں بلڈوزر کا استعمال ہر دن کے جوش کو بنائے رکھنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ ہندوؤں میں مسلمانوں کو اجڑتے، روتے، بدحواس دیکھنے کی پرتشدد خواہش بیدار کی جا رہی ہے۔ اب بی جے پی، میڈیا، پولیس اور انتظامیہ میں کوئی فرق نہیں رہ گیا ہے۔ ایک راستہ دکھا رہا ہے، ایک بلڈوزر کا قانون بتا رہا ہے، ایک ہتھیارکے ساتھ اس کو گھیرا دے کر چل رہا ہے، تو کوئی للکار رہا ہے۔
عید مبارک کے جواب میں اکشے ترتیہ یا پرشورام جینتی کی مبارکباد دینا کلینڈر پرست مذہبیت کی علامت ہے۔ ہم ہر جگہ اپنا تسلط چاہتے ہیں۔ آواز کی سرزمین پر، آواز کی لہروں پر بھی، دوسروں کی عبادت گاہوں پر اور سماج کے نفسی وجودپر بھی۔
ویڈیو: گزشتہ چند ہفتوں میں پورے ہندوستان بالخصوص مدھیہ پردیش کے کھرگون شہر میں فرقہ وارانہ تشدد کے بعد دہلی کے جہانگیر پوری علاقے میں ایسا ہی واقعہ پیش آیا۔ ان واقعات پر دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر اپوروانند کا نظریہ۔
گزشتہ چار پانچ دنوں میں جہانگیر پوری میں جو کچھ ہوا اس نے اس ملک کی بدترین اور بہترین، دونوں تصویروں کو صاف کر دیا ہے۔ اس قلیل عرصے میں ہم جان چکے ہیں کہ ہندوستان کو پورے طور پر تباہ کیسےکیا جا سکتا ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی کہ اگر اس کو بچانا ہے تو کیا کرنا ہوگا۔
ویڈیو: کرناٹک میں حلال گوشت پر جاری تنازعہ کے درمیان راجستھان کے کرولی میں ہندو نئے سال کے دوران تشدد اور کئی دیگر واقعات پر دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر اپوروانند کا نظریہ۔
عمر خالد کی ضمانت عرضی مسترد کرنے کے اپنے فیصلے میں عدالت یہ تسلیم کر رہی ہے کہ وکیل دفاع کی جانب سے پولیس کے بیان میں جو تضادات یا خامیاں نشان زد کیے گئے وہ ٹھیک ہیں۔ لیکن پھر وہ کہتی ہے کہ بھلے ہی تضاد ہو، اس پروہ ابھی غور نہیں کرے گی۔ یعنی ملزم بغیر سزا کے سزا بھگتنے کے لیےملعون ہے!
مغربی بنگال میں پہلے بائیں بازو کے تشدد کا غلبہ تھا، اسی کو ترنمول نے اپنایا۔ ترنمول نے بائیں بازو کے تشدد کا سامنا کیاتھا، لیکن اب اس کی جگہ اس نے ترنمول کےتشدد کو قائم کردیا ہے۔ پارٹی بھلے بدل گئی ہو، لیکن تشدد وہی ہے۔
ہندوؤں کے دلوں میں دریائےسخاوت ٹھاٹھیں مار رہا ہے، اور ان کی ترقی پسندی بھی عروج پر ہے۔وہ عورتوں کو ہر پردے اور ہر بندھن سے آزاد دیکھنے کے خواہش مند ہیں۔ وہ شدت پسندی کے خلاف لڑنا چاہتے ہیں۔ لیکن وہ یہ سب کچھ مسلمان عورتوں کے لیے کرنا چاہتے ہیں۔ کیونکہ ہندو خواتین کو کبھی کسی شدت پسندی یا کسی مذہبی پابندی کا شکار نہیں ہونا پڑتا !
وزیر اعظم کی خوبی یہ ہے کہ وہ جب بھی کسی ناخوشگوار صورتحال کا سامناکرتے ہیں تو کسی نہ کسی طرح ان کی جان خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ جب سے وہ وزیر اعلیٰ ہوئےتب سے اب تک کچھ وقت کے بعد ان کے قتل کی سازش کی کہانی کہی جانے لگتی ہے۔ لوگوں کو گرفتار کیا جاتا ہے، لیکن کچھ ثابت نہیں ہوتا۔ پھر ایک دن ایک نئے خطرے کی کہانی سامنے آجاتی ہے۔
سال 2014 کےبعدتشددجیسےاس معاشرے کےپور پورسے پھوٹ کر بہہ رہا ہے۔ یہ کہنا پڑے گا کہ ہندوستان کی ہندو برادری میں تشدد اور دوسری برادریوں کے تئیں نفرت کا احساس بڑھ گیا ہے۔غیر ہندو برادریوں میں ہندو مخالف نفرت کےپروپیگنڈے کی کوئی مثال نہیں ملتی۔یہ نفرت اور تشددیکطرفہ ہے۔
پچھلےسات سالوں میں باربارمسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف تشدد کے اشارے کیےگئے ہیں اور بڑے پیمانے پر ان کےحق میں دلائل دیے گئے ہیں۔ جب آپ آبادی کنٹرول کے نام پر قانون بناتے ہیں، اپنی بیٹیوں کی دوسرے مذاہب میں شادی کو روکنے کے نام پر، مسلم خواتین کو ان کے مردوں سے بچانے کے نام پر، آپ ان کے خلاف تشدد کے لیے زمین تیار کرتے ہیں۔
بی جے پی اور آر ایس ایس نہیں مانتے کہ مسلمانوں اور عیسائیوں کو اپنے طریقے سے روزی کمانے اور اپنی طرح سے مذہب پرعمل کرنے کا حق ہے۔لیکن اس بنیادی آئینی حق کو نہ ماننے اور اس کی من مانی تشریح کی چھوٹ پولیس اور انتظامیہ کو نہیں ہے۔ اگر وہ ایسا کر رہے ہیں تو وہ وردی یا کرسی کے لائق نہیں ہیں۔
کاس گنج میں سال 2018 میں مارے گئے چندن گپتا کے والدکہہ رہے ہیں کہ نوجوانوں کو اس راستےپر نہیں جانا چاہیے جس پر ہندوتوایاقوم پرستی کے جوش وجنون میں ان کا بیٹا چل پڑا تھا۔ کیا ان کی ناراضگی کی وجہ یہ ہے کہ وہ اس موت کے بعد یا اس کے بدلے جو چاہتے تھے، وہ نہیں ملا؟ یا وہ اس کے خطرے کو سمجھ پائے ہیں؟
کسانوں کی تحریک اس کاجیتا جاگتا ثبوت ہے کہ اگرمقصد واضح ہو تو اختلاف رائےکے باوجودمشترکہ جد وجہد کی جا سکتی ہے۔ سنیکت کسان مورچہ نے ایک لمبے عرصے بعد مشترکہ جدجہدکی پالیسی کو عملی جامہ پہنایا ہے۔
تناؤبھرےماحول میں ہمیشہ تشددکاامکان رہتاہے۔ سمجھداری اس سے بچنے میں ہے۔ہر تشدد معاشرے میں برادریوں کے درمیان خلیج کو وسیع کرتا ہے۔ بی جے پی کی سیاست کے لیے یہی مفید ہے۔
ویڈیو: دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر اپوروانند بتا رہے ہیں کہ کس طرح ہندو تہواروں کا استعمال فرقہ وارانہ نفرت پھیلانے اور اقلیتوں کو الگ تھلگ کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔
تریپورہ میں مسلمانوں کے خلاف تشدد بی جے پی کی سیاسی ضرورت ہے۔ ایک تو انتخاب ہونے والے ہیں اور جانکاروں کا کہنا ہے کہ ہر انتخاب میں ایسےتشدد سے بی جے پی کو فائدہ ہوتا ہے۔اس کے علاوہ مسلمانوں کے خلاف نفرت کو ہندو سماج کا مزاج بنانے کے لیے ایسے تشددکی تنظیم ضروری ہے۔
بنگلہ دیش میں تشدد کےنئےچکر سےشایدہم ایک جنوب ایشیائی پہل کے بارے میں سوچ سکیں جو اقلیتوں کےحقوق کےتحفظ اور ان کی برابری کےحق کےلیےایک بین الاقوامی معاہدہ کی تشکیل کرے ۔
اگر راجناتھ سنگھ کو جھوٹ ہی سہی، ساورکر کے معافی نامےکو قابل قبول بنانے کےلیے گاندھی کاسہارا لینا پڑا تو یہ ایک اور بار ساورکر پر گاندھی کی اخلاقی فتح ہے۔ اخلاقی پیمانہ گاندھی ہی رہیں گے، اسی پر کس کر سب کو دیکھا جائےگا۔جب جب ہندوستان اپنی راہ سےبھٹکتا ہے، دنیا کے دوسرے ملک اور رہنماہمیں گاندھی کی یاد دلاتے ہیں۔
عام آدمی پارٹی کا دعویٰ ہے کہ اس کے ترنگے کے رنگ پکے ہیں۔ خالص گھی کی طرح ہی وہ خالص قوم پرستی کا کاروبار کر رہی ہے۔ ہندوستان اور ابھی اتر پردیش کے رائے دہندگان کو قوم پرستی کا اصل ذائقہ اگر چاہیے تو وہ اس کی دکان پر آئیں۔اس کی قوم پرستی کی دال میں ہندوازم کی چھونک اور سشاسن کے بگھار کا وعدہ ہے۔
پہچان کاتصور خالصتاًانسانی ایجاد ہے۔ پہچان کےلیے خون کی ندیاں بہہ جاتی ہیں۔ پہچان کا سوال اقتصادی سوالوں کے کہیں اوپر ہے۔اس پہچان کو اگر کوئی انڈرگراؤنڈ کر دے، تو اس کی مجبوری سمجھی جا سکتی ہے اور اس سے اس کے سماج کی حالت کا اندازہ بھی ہوتا ہے۔
جب قومی پرچم کو اکثریتی جرائم کو جائز ٹھہرانے کےآلے کےطورپر کام میں لایا جانے لگےگا تووہ اپنی علامتی اہمیت سےمحروم ہوجائےگا۔ پھر ایک ترنگے پر دوسرا دو رنگا پڑا ہو، اس سے کس کو فرق پڑتا ہے؟
جس دن اخباراور ٹی وی چینل جیولن تھرو میں نیرج چوپڑا کے اس کارنامے کی تفصیلات چھاپ رہے تھے،جس دن نیرج کے پہلے کوچ نسیم احمد کشور انہیں یاد کر رہے تھے، اسی دن دہلی میں سینکڑوں لوگ ہندوستان کے نسیم احمد جیسے نام والوں کو کاٹ ڈالنے کے نعرے لگا رہے تھےاورہندوؤں کو ان کا قتل عام کرنے کا اکساوا دے رہے تھے۔ یہ لوگ بھی، نسیم احمدجیسے نام ایک طرح سے ہندوستان کے کشمیر ہیں، پورے ہندوستان میں بکھرے ہوئے!
ویڈیو: حال ہی میں پیو ریسرچ سینٹر نے 2019 کے اواخر اور 2020 کی شروعات کے بیچ17زبانوں میں لگ بھگ 30000بالغان کےانٹرویوز پر مبنی ایک رپورٹ جاری کی ہے۔ ‘ہندوستان میں مذہبی رواداری اور علیحدگی’کے عنوان سےاس مطالعے نےہندوستانی سماج میں مذہب کی حرکیات میں جامع بصیرت فراہم کی ہے۔ اس موضوع پر پروفیسر اپوروانند نے ماہر تعلیم پرتاپ بھانو مہتہ کے ساتھ بات چیت کی۔
امریکہ کے پیو ریسرچ سینٹرنے ہندوستان میں مذہبی ہونے کو لےکرسروے رپورٹ شائع کی ہے۔ رپورٹ دکھاتی ہے کہ ہم ہندوستانی دور سے سلام کےاصول پر عمل پیرا ہیں۔ آپ ہم سے زیادہ دوستی کی امید نہ کریں، ہم آپ کو تنگ نہیں کریں گے جب تک آپ اپنے دائرے میں بنے رہیں۔
کل جماعتی اجلاس کوسمجھنے کے لیے جموں وکشمیر کا ماہر ہونے کی ضرورت نہیں،معمولی سیاسی اور اخلاقی فہم کافی ہے۔حکومت ہند نے کیوں انہی رہنماؤں کو بلایا، جنہیں وہ خودغیرضروری مانتی رہی ہے؟ وجہ صاف ہے۔ وہ ایسی بیٹھکوں کے ذریعے5 اگست 2019 کو اٹھائے غیرآئینی قدم کو عوامی طور پرایک طرح کی قانونی حیثیت دلانا چاہتی ہے۔