تریپورہ میں مسلمانوں کے خلاف تشدد بی جے پی کی سیاسی ضرورت ہے۔ ایک تو انتخاب ہونے والے ہیں اور جانکاروں کا کہنا ہے کہ ہر انتخاب میں ایسےتشدد سے بی جے پی کو فائدہ ہوتا ہے۔اس کے علاوہ مسلمانوں کے خلاف نفرت کو ہندو سماج کا مزاج بنانے کے لیے ایسے تشددکی تنظیم ضروری ہے۔
بنگلہ دیش میں تشدد کےنئےچکر سےشایدہم ایک جنوب ایشیائی پہل کے بارے میں سوچ سکیں جو اقلیتوں کےحقوق کےتحفظ اور ان کی برابری کےحق کےلیےایک بین الاقوامی معاہدہ کی تشکیل کرے ۔
اگر راجناتھ سنگھ کو جھوٹ ہی سہی، ساورکر کے معافی نامےکو قابل قبول بنانے کےلیے گاندھی کاسہارا لینا پڑا تو یہ ایک اور بار ساورکر پر گاندھی کی اخلاقی فتح ہے۔ اخلاقی پیمانہ گاندھی ہی رہیں گے، اسی پر کس کر سب کو دیکھا جائےگا۔جب جب ہندوستان اپنی راہ سےبھٹکتا ہے، دنیا کے دوسرے ملک اور رہنماہمیں گاندھی کی یاد دلاتے ہیں۔
عام آدمی پارٹی کا دعویٰ ہے کہ اس کے ترنگے کے رنگ پکے ہیں۔ خالص گھی کی طرح ہی وہ خالص قوم پرستی کا کاروبار کر رہی ہے۔ ہندوستان اور ابھی اتر پردیش کے رائے دہندگان کو قوم پرستی کا اصل ذائقہ اگر چاہیے تو وہ اس کی دکان پر آئیں۔اس کی قوم پرستی کی دال میں ہندوازم کی چھونک اور سشاسن کے بگھار کا وعدہ ہے۔
پہچان کاتصور خالصتاًانسانی ایجاد ہے۔ پہچان کےلیے خون کی ندیاں بہہ جاتی ہیں۔ پہچان کا سوال اقتصادی سوالوں کے کہیں اوپر ہے۔اس پہچان کو اگر کوئی انڈرگراؤنڈ کر دے، تو اس کی مجبوری سمجھی جا سکتی ہے اور اس سے اس کے سماج کی حالت کا اندازہ بھی ہوتا ہے۔
جب قومی پرچم کو اکثریتی جرائم کو جائز ٹھہرانے کےآلے کےطورپر کام میں لایا جانے لگےگا تووہ اپنی علامتی اہمیت سےمحروم ہوجائےگا۔ پھر ایک ترنگے پر دوسرا دو رنگا پڑا ہو، اس سے کس کو فرق پڑتا ہے؟
جس دن اخباراور ٹی وی چینل جیولن تھرو میں نیرج چوپڑا کے اس کارنامے کی تفصیلات چھاپ رہے تھے،جس دن نیرج کے پہلے کوچ نسیم احمد کشور انہیں یاد کر رہے تھے، اسی دن دہلی میں سینکڑوں لوگ ہندوستان کے نسیم احمد جیسے نام والوں کو کاٹ ڈالنے کے نعرے لگا رہے تھےاورہندوؤں کو ان کا قتل عام کرنے کا اکساوا دے رہے تھے۔ یہ لوگ بھی، نسیم احمدجیسے نام ایک طرح سے ہندوستان کے کشمیر ہیں، پورے ہندوستان میں بکھرے ہوئے!
ویڈیو: حال ہی میں پیو ریسرچ سینٹر نے 2019 کے اواخر اور 2020 کی شروعات کے بیچ17زبانوں میں لگ بھگ 30000بالغان کےانٹرویوز پر مبنی ایک رپورٹ جاری کی ہے۔ ‘ہندوستان میں مذہبی رواداری اور علیحدگی’کے عنوان سےاس مطالعے نےہندوستانی سماج میں مذہب کی حرکیات میں جامع بصیرت فراہم کی ہے۔ اس موضوع پر پروفیسر اپوروانند نے ماہر تعلیم پرتاپ بھانو مہتہ کے ساتھ بات چیت کی۔
امریکہ کے پیو ریسرچ سینٹرنے ہندوستان میں مذہبی ہونے کو لےکرسروے رپورٹ شائع کی ہے۔ رپورٹ دکھاتی ہے کہ ہم ہندوستانی دور سے سلام کےاصول پر عمل پیرا ہیں۔ آپ ہم سے زیادہ دوستی کی امید نہ کریں، ہم آپ کو تنگ نہیں کریں گے جب تک آپ اپنے دائرے میں بنے رہیں۔
کل جماعتی اجلاس کوسمجھنے کے لیے جموں وکشمیر کا ماہر ہونے کی ضرورت نہیں،معمولی سیاسی اور اخلاقی فہم کافی ہے۔حکومت ہند نے کیوں انہی رہنماؤں کو بلایا، جنہیں وہ خودغیرضروری مانتی رہی ہے؟ وجہ صاف ہے۔ وہ ایسی بیٹھکوں کے ذریعے5 اگست 2019 کو اٹھائے غیرآئینی قدم کو عوامی طور پرایک طرح کی قانونی حیثیت دلانا چاہتی ہے۔
دہلی ہائی کورٹ کے تین طلبا- کارکنوں کو یو اے پی اے کے معاملے میں ضمانت دینے کے فیصلے کو دوسری عدالتوں کےذریعےنظیر کےطور پر استعمال نہ کرنے کاحکم دےکرسپریم کورٹ نے پھر بتا دیا کہ فرد کی آزادی اور ریاست کی خواہش میں وہ اب بھی ریاست کو ترجیح دیتی ہے۔
یہ ہندوستان کی معاشرتی فطرت بنتی جا رہی ہے کہ مسلمانوں کو کھلے عام مارا جا سکتا ہے، ان کے خلاف پرتشدد پروپیگنڈہ کیا جا سکتا ہے اور پولیس انتظامیہ سے لےکر سیاسی پارٹیوں تک کوئی بھی اسے سنگین معاملہ ماننے کو تیار نہیں۔
ویڈیو: حال ہی میں آئی کتاب ‘ری پبلک آف ہندوتوا’کے مصنف بدری نارائن بتا رہے ہیں کہ آر ایس ایس کس طرح سے زمین پر کام کرتا ہے۔ پہلے کے اور ابھی کے آر ایس ایس میں کیا کیا بدل گیا ہے۔ اس کتاب اور آر ایس ایس سے جڑے کئی مدعوں پر پروفیسر اپوروانند نے ان سے بات چیت کی۔
انسان کی آزادی سب سے اوپر ہے۔ جو ضمانت ایک ٹی وی پروگرام کرنے والے کا حق ہے، وہ حق گوتم نولکھا یا فادرا سٹین کا کیوں نہیں، یہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ عدالت کہےگی ہم کیا کریں، الزام یو اے پی اے قانون کے تحت ہیں۔ ضمانت کیسے دیں! لیکن اپنے او پر یہ بندش بھی خود سپریم کورٹ نے ہی لگائی ہے۔
ٹیکہ کاری کواگر کامیاب ہونا ہے تو اسے مفت ہونا ہی ہوگا، یہ ہر ٹیکہ کاری مہم کا تجربہ ہے، توہندوستان میں ہی کیوں لوگوں کو ٹیکے کے لیے پیسہ دینا پڑےگا؟ مہاماری کی روک تھام کے لیے ٹیکہ لائف سپورٹ ہے، پھر حکومت ہند کے لیے ایک ٹیکس دہندہ کی زندگی کی اہمیت اتنی کم کیوں ہے کہ وہ اس کے لیے خرچ نہیں کرنا چاہتی؟
ذات پات ایک ایسی رخنہ اندازی ہے جو معاشرےکی تعمیر وتشکیل نہیں ہونے دیتی۔ ملک بن کر بھی نہیں بن پاتا کیونکہ ہم ایک دوسرے کے لیے جوابدہ نہیں ہوتے۔ اتحادیااخوت کی عدم موجود گی میں سماجی ورثےکی تعمیر بھی نہیں ہو پاتی۔
ایک ملک میں اقلیتوں پر حملے کی مخالفت کے دوران جب اسی ملک کے اقلیتوں پر حملہ ہونے لگے تو شبہ ہوتا ہے کہ یہ حقیقت میں کسی ناانصافی کے خلاف یا برابری جیسے کسی اصول کی بحالی کے لیے نہیں ہے، بلکہ اس کے پیچھے بھی ایک اکثریتی تعصب ہی ہے۔
ویڈیو: اتر پردیش کے غازی آبادواقع شیو شکتی دھام ڈاسنہ مندر میں ایک مسلمان لڑکے کو پانی پینے کے لیےبے رحمی سے پیٹا گیا۔ ڈاسنہ میں ہونے والا یہ واقعہ نفرت کی ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ ذہنیت کیوں پیدا ہوتی ہے؟ اس کے پیچھے کیا وجہ ہے؟ ان باتوں کو سمجھنے کے لیےآزاد صحافی علی شان جعفری سے دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر اپوروانند کی بات چیت۔
ڈاسنہ کے واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جس کوتشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے، پولیس اس کے ساتھ کھڑی ہو سکتی ہے۔ جس نے تشدد کیاپولیس اس کو ڈھونڈ کر اس کے ساتھ انصاف کاعمل شروع کر سکتی ہے۔ انسانیت کی بقا کی امیدقانون یا آئین کی فہم کے زندہ رہنے پر ہی منحصر ہے۔
ویڈیو:موجودہ کسانوں کےاحتجاج اوردوسری تحریکات کے تئیں نریندر مودی سرکار کے ردعمل پر دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر اپوروانند کی دی وائر کے بانی مدیرسدھارتھ وردراجن سے بات چیت۔
دوسرے ممالک ہوں گے جہاں گریتااسٹار ہیں ، ہم اپنی گریتا دشا روی کو جیل میں رکھتے ہیں۔ وہ کوئی اور زمانہ ہوگا اور کوئی اور ملک جہاں مفاد سے اوپر اٹھ کر فطرت اور ماحولیات کی فکرکرنے والوں کا استقبال ہوتا ہے۔ یہاں ان کو جیل ملتا ہے۔
ہندوستان میں ایک نیا ریڈیکلائزیشن شکل لے چکا ہے۔ اس کو روزمرہ کی دہشت گردی کہہ سکتے ہیں۔ اس کی خاصیت یہ ہے کہ اس کو’اسلامی دہشت گردی’کے برعکس ہندوؤں میں وسیع پیمانے پر حمایت حاصل ہے۔
سال2021 میں جاتے ہوئے کیا ان سب سے نجات پانا ممکن ہوگا، جن میں ہم نے سال 2020 بتایا ہے؟
الزام ہے کہ شرجیل امام نے نارتھ -ایسٹ کو ہندوستان سے کاٹ دینے کا اکساوا دیتے ہوئے بیان دیے تھے۔ انہوں نے اتنا ہی کیا تھا کہ سرکار پر دباؤ ڈالنے کے لیے راستہ جام کرنے کی بات کہی تھی۔ کسان ابھی چاروں طرف سے دہلی کا راستہ بند کرنے کی بات کہہ رہے ہیں، تاکہ سرکار پر دباؤ بڑھے اور وہ اپنی ہٹ دھرمی چھوڑے۔ کیا اسے دہشت گردانہ کارروائی کہا جائےگا؟
ویڈیو: زرعی قوانین کو لےکر کسانوں اور سرکار کے بیچ جاری تعطل کو سلجھانے کے لیے سپریم کورٹ نے حال ہی میں ایک کمیٹی کے قیام کا مشورہ دیا ہے۔ اسے لےکر دہلی یونیورسٹی کےپروفیسر اپوروانند کا نظریہ۔
ویڈیو: حکومت ہند کی جانب سے لائے گئے شہریت قانون کی مخالفت11دسمبر 2019 سے دہلی کے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے شروع ہوئی تھی۔ اس قانون کے پاس کیے جانے اور اس کی مخالفت کے ایک سال مکمل ہونے پر تحریک کی ضرورت اوراہمیت پر دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر اپوروانند کا نظریہ۔
بی جے پی لو جہاد کے راگ کو کیوں نہیں چھوڑ رہی؟وہ ہندوؤں میں خوف بٹھا رہی ہے کہ ‘ہماری’عورتوں کا استعمال کرکے ‘ودھرمی’اپنی تعداد بڑھانے کی سازش کر رہے ہیں۔ ‘ودھرمیوں’ کی تعداد میں اضافہ پریشانی کا سبب ہے۔ تعداد ہی طاقت ہے اور وہی برتری کی بنیاد ہے۔ اس لیے ایسی ہر شادی یا رشتے کی مخالفت کی جانی ہے، کیونکہ اس سے ‘ودھرمی’ کی تعداد بڑھ جاتی ہے۔
عوام کی ہر مخالفت کو جرم ٹھہرایا جا رہا ہے۔ وہ دن دور نہیں ہے جب حکومت ہندوستانیوں کو یہ بتائےگی کہ ان کا بےروزگاری کے خلاف بولنا، کسانوں کا حکومت کے خلاف کھڑا ہونا، سب کچھ بین الاقوامی سازش ہے۔ ہندوستان میں پیدا ہونے کوبھی ایک سازش قراردیا جا سکتا ہے۔
ویڈیو: ایودھیا میں رام مندر کے بھومی پوجن تقریب میں وزیر اعظم نریندرمودی نے کہا کہ برسوں سے ٹاٹ اور ٹینٹ کے نیچے رہ رہے ہمارے رام للا کے لیے اب ایک عظیم الشان مندر کی تعمیر ہوگی۔ ٹوٹنا اور پھر اٹھ کھڑا ہونا، صدیوں سے جاری رکاوٹ سے رام جنم بھومی کو آج آزادی مل گئی۔اسی مدعے پر دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر اپوروانند کا نظریہ۔
اپوزیشن کے سوال کرنے کو چھوٹا پن بتایا جا رہا ہے۔ 20 جوانوں کی ہلاکت کے بعد کہا گیا کہ بہاررجمنٹ کے جوانوں نے شہادت دی،یہ بہار کے لوگوں کے لیےفخر کی بات ہے۔دوسری ریاستوں کے جوان بھی مارے گئے، ان کا نام الگ سے کیوں نہیں؟ صرف بہار کا نام کیوں؟ کیا یہ بیہودگی نہیں ہے؟
ویڈیو: شمال مشرقی دہلی میں ہوئے فسادات کے دوران ہیڈ کانسٹبل رتن لال کےقتل معاملے میں پولیس نے کورٹ میں چارج شیٹ داخل کی ہے۔اس میں سماجی کارکن ہرش مندر کا بھی ذکر ہے۔کہا گیا ہے کہ شہریت ترمیم قانون کے خلاف مظاہروں کے دوران ہرش نے اشتعال انگیز بیانات دیے تھے۔اس موضوع پر دی وائر کے بانی مدیر سدھارتھ وردراجن اور ہرش مندر کے ساتھ پروفیسر اپوروانند کی بات چیت۔
دہلی پولیس اس بات پر یقین کرنے کو کہہ رہی ہے کہ فروری میں دہلی میں ہوئے تشدد کے پیچھے ایک سازش ہے اور اس میں و ہی لوگ شامل ہیں جنہوں نے کسی نہ کسی طورپر شہریت قانون کے خلاف ہوئے مظاہروں میں حصہ لیا تھا۔ پولیس کو یہ اسکرپٹ ان کے سیاسی آقاؤں نے دی اور جانچ ایجنسیوں نے اس کو کہانی کی صورت میں فروغ دیا ہے۔
کارل مارکس نے 175 سال پہلے لکھا کہ محنت کش جس چیزکو بناتےہیں، وہ چیز جتنی عظیم یا طاقتور ہوتی جاتی ہے، محنت کش کی طاقت اسی تناسب میں گھٹتی چلی جاتی ہے۔ اگر ریل کی پٹریوں پر مرنے والے یہ محنت کش ملک کے معمار ہیں اور یہ ملک لگاتار طاقتور ہوتا گیا ہے، تو یہ اتنے ہی کمزور ہوتے گئے ہیں۔
مسلمانوں کے خیر خواہ تبلیغ والوں کو کڑی سزا دینے، یہاں تک کہ اس پر پابندی لگانے کی مانگکر رہے ہیں۔ اس ایک احمقانہ حرکت نے عام ہندوؤں میں مسلمانوں کےخلاف بیٹھے تعصب پر ایک اور تہہ جما دی ہے۔ ایسا سوچنے والوں کو کیا یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ ہندو ہوں یا عیسائی، ان کے اندر مسلمانوں کی مخالفت کی وجہ مسلمانوں کی طرز زندگی یا ان کے ایک حصے کی جہالت نہیں ہے۔
ہندوستان ایک ثقافتی اکائی ہے۔ باوجود مختلف زبانوں، ملبوسات اور کھان پان کے ہم سب حماقت کے ایک دھاگے میں بندھے ہیں۔ قومی یکجہتی کا یہ مظاہرہ اور ثبوت دل کو تسلی دیتا ہے۔
جو حکومت ہمیں خود کا خیال رکھنے کی صلاح بھر دے سکتی ہے، وہ ہمیں اس وباسے کتنا بچا سکتی ہے؟
ویڈیو: شاعرانہ زبان کا ایک خاص طریقے کا استعمال ہوتا ہے اور اس کا استعمال کیسے کرتے ہیں اس کے بارے میں بات چیت کر رہے ہیں سینئر صحافی اور قلمکار ندھیش تیاگی کے ساتھ پروفیسر اپوروانند۔
ویڈیو: نارتھ-ایسٹ دہلی میں شہر یت قانون (سی اے اے)کو لے کر ہوئے فرقہ وارانہ تشدد میں مارے گئے لوگوں کی تعداد بڑھ کر 42 ہوچکی ہے۔ یہ تعداد بدھ تک 27 تھی ،جس میں 25 لوگوں کی موت دلشاد گارڈین واقع جی ٹی بی ہاسپٹل میں ہوئی تھی۔
دہلی تشدد کی تیاری میں وزیر اعظم، وزیر داخلہ، دوسرے مرکزی وزراءاور بی جے پی کے رہنماؤں کا براہ راست اور بالواسطہ مسلم مخالف اشتعال انگیزکردار ہے۔ اگر کبھی اس تشدد کی غیر جانبدارانہ تفتیش ہوئی، جس کی امید نہ کے برابرہے تو ان سب پر ان تمام قتل کے لئے ذمہ داری طے کی جائےگی۔
ویڈیو: بنگلور میں ہوئی اسدالدین اویسی کی ایک ریلی میں ’امولیہ‘نامی لڑکی نے پاکستان زندہ باد کے نعرے لگائے ، اس کو اب سیڈیشن کے الزام میں 14 دن کی عدالتی حراست میں لیا گیا ہے۔ اس پر اپوروانند کا نظریہ۔