سخن ہائے گفتنی: پوری دنیا میں لاکھوں یہودی، مسلمان، عیسائی، ہندو، کمیونسٹ اور ملحد غزہ کے خلاف فوراً جنگ بندی کا مطالبہ کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ لیکن وہ ملک جو کبھی فلسطین کا خیرخواہ اور سچا دوست تھا، جہاں کبھی لاکھوں لوگوں کے جلوس نکلے ہوئے ہوتے، وہاں کی سڑکیں آج خاموش ہیں۔
فلسطین اور اسرائیل کی خاطر، جو زندہ ہیں ان کی خاطر اور جو مارے گئے ان کے نام پر، حماس کے ہاتھوں یرغمال بنائے لوگوں کی خاطر اور اسرائیلی جیلوں میں بند فلسطینیوں کی خاطر، ساری انسانیت کی خاطر، غزہ پر حملہ فوراً بند ہونا چاہیے۔
جو لوگ یقین کرتے ہیں کہ ہندوستان اب بھی ایک جمہوریت ہے، انہیں گزشتہ چند مہینوں میں منی پور سے مظفر نگر تک رونما ہونے والے واقعات پر نگاہ کرنی چاہیے۔ وارننگ کا وقت ختم ہو چکا ہے اور ہم اپنے عوام الناس کے ایک حصے سے اتنے ہی خوفزدہ ہیں جتنے اپنے رہنماؤں سے۔
امریکی صدر جو بائیڈن کا دعویٰ ہے کہ ان کی حکومت کا کلیدی اصول ‘جمہوریت کا تحفظ’ ہے۔ یہ قابل ستائش امرہے، لیکن ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی کے دورے کے وقت واشنگٹن میں جو کچھ ہوا وہ اس کے بالکل برعکس تھا۔ امریکی حکمراں جس شخص کے آگے سجدہ ریز تھے، اس نے بڑے منظم طریقے سے ہندوستانی جمہوریت کو کمزور کیا ہے۔
سخن ہائے گفتنی: ایک مسلمان وہ نہیں کہہ سکتا جو ایک ہندو کہہ سکتا ہے؟ ایک کشمیری وہ نہیں کہہ سکتاہے جو دوسرے لوگ کہہ سکتے ہیں۔آج یکجہتی، بھائی چارہ اور دوسروں کے حقوق کے لیے آواز اٹھانا پہلے سے کہیں زیادہ ضروری ہوگیا ہے ،لیکن ایسا کرنا نہایت خطرناک اور جان جوکھم میں ڈالنے کی طرح ہے ۔
بی بی سی ہنڈن برگ معاملے کو ہندوستانی میڈیا اس طرح پیش کر رہا ہے کہ یہ ہندوستان کےٹوین ٹاورز پر کسی حملے سے کم نہیں ہے۔ یہ ٹوین ٹاور ہیں، وزیر اعظم نریندر مودی اور ہندوستان کے سب سے بڑے صنعت کار گوتم اڈانی۔ ان دونوں پر لگائے گئے الزامات ہلکے نہیں ہیں۔
پہلے مسلمانوں کو سزا دینے کے لیے قتل عام کیا جاتا تھا، بھیڑ ان کو پیٹ پیٹ کر مار ڈالتی تھی، ان کو نشانہ بناکر قتل کیا جاتا تھا، وہ حراستوں اورفرضی انکاؤنٹر میں مارے جاتے تھے یا جھوٹے الزامات میں قید کیے جاتے تھے۔ اب ان کی جائیدادوں کو بلڈوز سے منہدم کردینا اس فہرست میں شامل ایک نیا ہتھیار ہے۔
ٹکنالوجی کو واپس نہیں لیا جا سکتا۔لیکن اسے کھلے بازار میں بےقابو، قانونی صنعت کے طور پر کام کرنے کی اجازت دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس پر قانون کی گرفت ہونی چاہیے۔ تکنیک رہ سکتی ہے، لیکن صنعت کا رہنا ضروری نہیں ہے۔
کووڈ مہاماری کے اس شدید بحرانی دورمیں وزیر اعظم نریندر مودی جوابدہی کا یہی ایک کام کر سکتے ہیں کہ وہ اپنی کرسی چھوڑ دیں۔
سخن ہائے گفتنی: محبت کی خاطر کی جا رہی اس جنگ میں یہ ضروری ہے کہ اس کو فوجی کی طرح لڑا جائے اور خوبصورت طریقے سے جیتا جائے۔
جس طرح کورونا وائرس انسانی جسم میں داخل ہو جاتا ہے اور وہاں موجود بیماریوں کے اثرات کو تیز کر دیتا ہے ، ٹھیک اسی طرح اس نے مختلف ممالک اور معاشرےمیں رسائی حاصل کر کےان کی کمزوریوں کو بے نقاب کردیا ہے۔
خصوصی تحریر: اطلاعات کے اس زمانے میں کسی حکومت کا اتنی آسانی سے ایک پوری آبادی کو باقی دنیا سے کاٹ دینا ظاہر کرتا ہے کہ ہم کس طرف بڑھ رہے ہیں۔
حملہ کتنا بھی افسوس ناک کیوں نہ ہو، نریندر مودی کےلیے یہ ایک شاندار سیاسی موقع تھا ایسا کچھ کرنے کا جس میں وہ ماہر ہے—شاندار نمائش۔ ہم میں سے بہت سے لوگوں نے مہینوں پہلے پیش گوئی کرکے آگاہ کر دیا تھا کہ بی جے پی ، جس کے پیروں سے سیاسی زمین کھسک رہی ہے، انتخابات سے ٹھیک پہلے آسمان سے آگ کا گولہ اتار لائے گی۔
آج کے ہندوستان میں کسی اقلیتی گروپ میں ہونا ایک گناہ ہے۔ مار دیا جانا ایک جرم ہے۔ پیٹ پیٹ کر مار دیا جانا (لنچ کر دیا جانا) ایک جرم ہے۔ غریب ہونا جرم ہے۔ غریبوں کے حق میں کھڑا ہونے اور اس کی پیروی کرنے کا مطلب حکومت کا تختہ پلٹ کرنے کی سازش کی جارہی ہے۔