فلسطین اور اسرائیل کی خاطر، جو زندہ ہیں ان کی خاطر اور جو مارے گئے ان کے نام پر، حماس کے ہاتھوں یرغمال بنائے لوگوں کی خاطر اور اسرائیلی جیلوں میں بند فلسطینیوں کی خاطر، ساری انسانیت کی خاطر، غزہ پر حملہ فوراً بند ہونا چاہیے۔
دنیا بھر میں لاکھوں لوگ، یہودی، مسلمان، عیسائی، ہندو، کمیونسٹ، مذہبی اور ملحد لوگ، سڑکوں پر جلوس نکال رہے ہیں اور غزہ پر حملے کو فوراً بند کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ان بے شمار لوگوں کے ساتھ اپنی آواز ملائے بغیر میں کسی عوامی فورم پر نہیں آ سکتی – نہیں، جرمنی میں بھی نہیں، جہاں میں جانتی ہوں کہ میرے جیسے خیال پر پابندی ہے۔
اگر ہم نے اس کھلے عام قتل کو جاری رہنے دیا، جبکہ یہ ہماری نجی زندگی کے بے حد مخصوص گوشوں میں لائیو اسٹریم ہو رہا ہے، تو ہم بھی اس قتل عام میں شریک ہو رہے ہیں۔ ہمارا اخلاقی وجود ہمیشہ کے لیے بکھر جائے گا۔
جب ہسپتالوں پر بمباری ہو رہی ہو، جب لاکھوں لوگ اپنے گھروں سے اجاڑے جا چکے ہوں اور ملبوں کے نیچے سے بچوں کی لاشیں نکل رہی ہیں، کیا ہم صرف کھڑے ہو کر دیکھتے رہیں گے؟ کیا ہم ایک بار پھر خاموشی سے یہ دیکھتے رہیں گے کہ ایک پوری قوم کی عزت اور انسانی حیثیت کو اس قدر کمتر بنا دیا جا ئے کہ انہیں روئے زمین سے مٹا دینے سے کوئی فرق نہ پڑتا ہو؟
ویسٹ بینک پر اسرائیلی قبضہ اور غزہ کا محاصرہ انسانیت کے خلاف جرائم ہیں۔ امریکہ اور دیگر ممالک اس جرم میں برابر کے شریک ہیں جو اس قبضے کے لیے پیسہ اور اسلحہ فراہم کراتے ہیں۔ ابھی ہم جس وحشت کا مشاہدہ کر رہے ہیں،جس میں حماس اور اسرائیل کے ذریعے شہری آبادی کا بے شرمی سے قتل عام، محاصرہ اور قبضے کا نتیجہ ہے۔
خواہ دونوں طرف سے ہونے والے مظالم کی کتنی ہی تفصیلات بتا دی جائیں، ان کی زیادتیوں کی کتنی ہی مذمت کی جائے، خواہ کتنی ہی جھوٹی بات کہی جائے کہ ان کے مظالم کے پیمانوں میں برابری ہے، وہ ہمیں کسی حل تک نہیں پہنچا سکتے۔ اس وحشت کو جنم دینے والی چیز ہے قبضہ۔
قبضہ ہی وہ چیز ہے جو جرم کرنےوالوں اور اس جرم کا نشانہ بننے والوں، دونوں پر تشدد کررہی ہے۔ اس کے مظلوم مر چکے ہیں، اور اس کے مجرموں کو اب اپنے جرائم کے ساتھ جینا پڑے گا۔ اور ان کی آنے والی نسلوں کو بھی۔
یہ کسی فوجی کارروائی سے حل نہیں ہو سکتا۔ یہ صرف ایک سیاسی حل ہو سکتا ہے، جس میں اسرائیلی اور فلسطینی دونوں کو ہی ، ایک ساتھ یا ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ رہنا پڑے گا۔ احترام اور مساوی حقوق کے ساتھ۔
اس میں دنیا کی مداخلت ضروری ہے۔ اس قبضے کا خاتمہ ضروری ہے۔ فلسطینیوں کو حقیقی معنوں میں ایک ملک ملنا ضروری ہے۔ اگر نہیں تو مغربی تہذیب کی اخلاقی عمارت منہدم ہو جائے گی۔ ہم جانتے تھے کہ یہ ہمیشہ ہی ایک دو منہ والی چیز تھی، لیکن اس میں بھی ایک قسم کی پناہ ملتی تھی۔ وہ پناہ گاہ ہماری آنکھوں کے سامنے سے ختم ہو رہی ہے۔ اس لیے فلسطین اور اسرائیل کی خاطر، جو زندہ ہیں ان کی خاطر اور جو مارے گئے ان کے نام پر،حماس کے ہاتھوں یرغمال بنائے گئے لوگوں کی خاطر اور اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینیوں کی خاطر، ساری انسانیت کی خاطر، غزہ پر حملہ فوراً بند ہو۔ سیز فائر ناؤ۔
(ہندی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کیجیے)
Categories: فکر و نظر