مجھے نہیں لگتا ہے کہ مرکزی کردار کے لئے منوج واجپئی سے بہتر کوئی آپشن ہوتا۔ وہ چہرے پر درد بھری ایک گانٹھ کو جس طرح سے پوری فلم میں لےکر چلتے ہیں، ناظرین کو اپنے اثر سے باہر نہیں آنے دیتے۔
دی بوائے ان دی اسٹرپڈ پاجاماز: کمال کی فلم ہے، جس کو ہم ہندوستانیوں کا دیکھنا اس لئے بھی ضروری ہے، کیونکہ آج ہم پر بھی اس وقت کے نازی سماج کی طرح سوچنے کا دباؤ ہے۔ پورے جرمنی میں جب نسلی تشدد کا طوفان تھا، نازی کیمپوں […]
میرے لئے کالا حیران ہوکر دیکھنے والی فلم رہی،ہندوستانی سینما کی تاریخ میں کالا پہلی فلم ہے، جس میں کردار جئے بھیم کے نعرے لگاتے ہیں۔
سری دیوی کے نہیں ہونے کی خبر کے ساتھ جو چیز میرےذہن میں سب سے پہلے آئی، وہ تھی کہ ہم ان کو ہمیشہ ایک ہی شکل اور صورت میں یاد کر پائیںگے۔
راجاؤں کی تاریخ میں یقین کرنے والے لوگ رعایا کی تاریخ سے کتراتے ہیں۔ آپ نے بھی غور کیا ہوگا کہ خلجی، رتن سنگھ اور پدماوتی کی تثلیث میں الجھی ہوئی فلم رعایا کے رہن سہن، ان کی سوچ سے پوری طرح کنارہ کئے ہوئی ہے۔
ان کا ناول’ چھاڑن ‘ پڑھنے کے بعد ان سے کہا کہ یہ ناول آپ کی تمام کتابوں پر بھاری ہے۔ اب آپ کو قصّہ گوئی کے مکان میں بس جانا چاہیے اور شاعری کے کمرے کا دروازہ بند کر دینا چاہیے۔ سریندر اسنگدھ چلے گئے۔ سب کو ایک […]
دھرکھیل، صلم، سلیما جیسے لفظ پتا نہیں ناظر ین کی گرفت میں آ پائیںگے یا نہیں لیکن وہ کہانی ہی کیا جس میں زبان سے لےکر پہناوےاوڑھاوے تک میں مقامیت اوراس کی صداقت موجود نہ ہو۔ آپ بھول جائیے کہ گاؤں کے مہتو ٹولے کی بھری پوری معصومیت […]
اب تو سی بی آئی بھی ریڈ ڈالنے کے بعد پوچھتی ہے؛’بتا کیس درج کریں یا بی جے پی جوائن کروگے؟‘ غالبؔ کا ایک شعر ہے، درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا۔ عوام جب دیکھتی ہے کہ اس کے دکھ کی پرواہ کسی کو نہیں […]
صبح کی اذان سے پہلے پوجا کا سامان سر پر اٹھاکر ہم مسلمانوں کے محلے سے گزرتے تھے،وہ وضو کرتے ہوئے ہماری طرف پیار سےدیکھتے تھے۔ دنیا بھر کی تہذیبیں ندیوں کے کنارےپھلی پھولی ہیں۔ کہاوت ہے بن پانی سب سون۔ مذہب بھی پانی کے بغیر مذہب نہیں […]
انوراگ کشیپ مجھے اس لئے پسند ہیں کیوں کہ ان کی کہانیوں میں کبھی کوئی سیدھی لکیر نہیں ہوتی۔ کیا ‘مکّاباز’ایک لواسٹوری ہے؟یا پھر یہ شمالی ہندوستانی سماج کی دیواروں پر پتے ہوئے ذات برادری کےچونے کو انصاف کے پنچ (مُکّے)سے جھاڑنے کی کہانی ہے؟ یا یہ اسٹوری […]
ایسے میں پرکاش راج جیسے لوگوں کا سچ بولنا اور اپنے بولے ہوئے کو لےکر کھڑے رہنا ایک نظیر ہے۔ ایسی ہی نظیر کمل ہاسن نے بھی وقتاً فوقتاً پیش کی ہے۔ سماج میں اثرو رسوخ رکھنے والے لوگوں کو سچ بولنا چاہیے۔جس طرح ان کے فیشن کا اثر سماج پر ہوتا ہے، ان کی راست بیانی بھی اتنا ہی اثر رکھتی ہے۔دنکر کے لفظوں میں؛سمر شیش ہے نہیں پاپ کا بھاگی کیول ویاگھر ؛ جو تٹھستھ ہیں سمئے لکھےگا ان کے بھی اپرادھ