غزل کے کوچے میں ایک اور میر— منور رانا
منور رانا کی شاعری میں ماضی کی آہٹوں کے ساتھ آج کی تاریخ، تہذیب اور تصویر قید ہے۔ یہ ہمارے معاشرے کی ذہنی ساخت اور انفرادی احساس کا روز نامچہ ہے جس میں ایک ایک لمحے کا حال درج ہے۔
منور رانا کی شاعری میں ماضی کی آہٹوں کے ساتھ آج کی تاریخ، تہذیب اور تصویر قید ہے۔ یہ ہمارے معاشرے کی ذہنی ساخت اور انفرادی احساس کا روز نامچہ ہے جس میں ایک ایک لمحے کا حال درج ہے۔
ایسی شاعری جس کی ہمہ وقت ضرورت محسوس ہو جس کی لذت، جس کا لطف کبھی کم نہ ہو جو ذہن کو مہمیز کرے۔ بہت معصوم، بہت پیاری ہوتی ہے جو شریانوں میں لہو کی طرح دوڑتی ہے، آنکھوں سے آنسو کی طرح ٹپکتی ہے۔ اکیلی رات میں چاند کا روپ دھار لیتی ہے۔ ایسی کیفیت کیفی اعظمی کی شاعری میں ہے جس کی ساحری میں، میں اب تک قید ہوں۔
’غالب کی شاعری میں زندگی کے بہت سارے رنگ ہیں جن میں ایک رنگ وہ بھی ہے جنہیں عام طور پر ناقدین نظر انداز کرتے رہے ہیں اور وہ ہے عوامی دردوکرب کا رنگ جسے غالب نے اپنی شخصی زندگی کے تجربوں کے حوالے سے شاعری میں ڈھالا ہے۔‘
پروین کے یہاں شاید وہی بری عورت ہے جو اپنی چوڑیوں سے نیزے بناتی رہی اور بدن پر بھونکنے والے اعلیٰ نسل کے کتوں کے خلاف لکھتی رہی۔
’بچوں کا باغ‘ اور ’چہکاریں‘ کے بعد’حوصلوں کی اڑان‘ ادب اطفال میں ایک اضافہ ہی نہیں بلکہ ایک صحیح سمت کا سفر اور ایک نئی تخلیقی اڑان ہے۔
کلام اکبر سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ اکبرمغربی تعلیم وتہذیب سے زیادہ مغربی مادیت اور صارفیت کے خلاف تھے۔ وہ ایک مہذب مشرقی معاشرہ کو مشینی اور میکانیکی معاشرہ میں بدلتا نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔ مادی اشیاء سے زیادہ انہیں روحانی اقدار عزیز تھی۔ وہ قوم کو مغلوبیت اور مرعوبیت کے احساس سے باہر نکالنا چاہتے تھے ۔
صلاح بھائی نے شوق گل بوسی میں کانٹوں پہ زباں رکھ دی ہے اورجتنی بھی اذیتیں اورعذاب ہیں،سب اسی وجہ سے ہیں۔فن کارجب دکھ اذیت،عذاب سے گزرتاہے تو اس کی چیخ وکراہ کو کوئی کیوں نہیں سنتا؟
خصوصی تحریر: ندا فاضلی نے شاعری بھی محبت کی زبان میں کی اور نثر بھی لکھی تو عشق کی زبان میں اور شاید اسی عشق کی زبان نے ندا فاضلی کے نصیب میں وہ شہرت اور مقبولیت لکھ دی جو بہت کم لوگوں کو ملتی ہے۔
رضوان اللہ کے اوراق مصور میں کلکتہ بھی ہے اور دلی بھی— اس سے ہمیں کلکتہ کے کل، آج اور کل کے بارے میں بہت سی معلومات ملتی ہیں اور دلی کے دل کا حال معلوم ہوتا ہے۔’اوراق مصور‘ کلکتہ کا کولاژ ہے اور اس میں شبدوں سے جو چترکاری کی گئی ہے، وہ تصویریں انتہائی حسین ہیں … اس میں فکر، معانی اور لفظیات کا حسن سمٹ آیا ہے۔
تذکار و تنقید: ڈاکٹر عبدالحی نے پوری اردو برادری کی طرف سے ایک فرضِ کفایہ ادا کیا ہے۔ یقیناً اس کتاب سے زبیر رضوی پر کام کرنے والوں کو بہت مدد ملے گی کیونکہ اس میں بہت سے وہ مضامین شامل ہیں جو پرانے بوسیدہ رسائل میں محفوظ تھے جو اب تلاش بسیار کے باوجود شاید ہی مل سکیں۔
حقانی القاسمی لکھتے ہیں؛اس لائبریری میں اتنا قیمتی ذخیرہ ہے کہ برٹش میوزیم نے اس کے عوض غیرمعمولی رقم کی پیش کش کی مگر خدا بخش کے جذبے نے اس پیشکش کو یکسر مسترد کردیا۔ انہوں نے صاف کہا کہ ؛مجھ غریب آدمی کو یہ شاہی پیش کش منظور نہیں۔
کبیر کا بنیادی مقصد، آزادی، اخوت، اتحاد، مساوات اور ہر انسانی فرد کا ممکنہ ارتقا تھا۔
ساحر بڑا شاعر ہے اس لیے بھی کہ ان کی شاعری میں اقتدار، آئین،سماج اور سیاست سے سوال ہے۔
استعارہ کا پہلا شمارہ شائع ہوا تو اس پر نصرت ظہیر نے اپنے مخصوص انداز میں ایک کالم لکھا اور میرا ً بھی ذکر خیر نمبر دو کے مدیر کی حیثیت سے کیا۔ اس سے قطع نظر کہ نمبر دو سے ان کی مراد کیا تھی مجھے ان […]
مجاز کی شاعری میں رباب بھی ہے انقلاب بھی کہ جس تہذیب کے میخانے سے ان کا رشتہ تھا وہاں شمشیر بھی ہے ‘ ساغر بھی ۔
صادقین کو شاعری ورثے میں ملی تھی کہ میر تقی میر کے استاد امیر علی انہی کے اجداد میں سے تھے اور میر انیس کے والد مبرورنے بھی خانوادۂ صادقین سے ہی کسب فیض کیا تھا۔
یہ عجب تماشہ ہے کہ میرتقی میرپرایک معمولی مضمون لکھنے والا ہمارے ہاں ناقد کہلاتاہے لیکن نیوٹن کے نظریہ پرنقد کرنے والا Criticنہیں بن پاتا۔ جبکہ تنقید کا دائرہ سائنسی، سماجی علوم کو بھی محیط ہے۔ حالی اور شبلی کی تنقید کاشجرہ نسب ایک ہے۔مشرقی شعریات کادونوں نے […]
سرسید احمد خان کے دو سو سالہ جشن ولادت کی مناسبت سے بھی کچھ کتابیں اور رسالے حالیہ دنوں میں شائع ہوئے ہیں جن میں سہ ماہی ’فکر و نظر‘ علی گڑھ کا سرسید نمبر اور راحت ابرار کی کتاب ’سرسید احمد خاں اور ان کے معاصرین‘ قابل […]