رہنماؤں کی ہیٹ اسپیچ، سوشل میڈیا اور نیوز چینلوں کے ذریعے سماج میں شدت پسندی اور نفرت انگیز خیالات کو بالکل نارمل انداز میں پیش کیا جا رہا ہے اور ایسا کرنے والوں میں سریش چوہانکے اکیلے نہیں ہیں۔
دہلی فسادات کےمعاملے میں دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر اپوروانند سے پوچھ تاچھ کے بعد کئی میڈیا رپورٹس میں دہلی پولیس کی جانب سے لیک جانکاری کی بنیاد پر انہیں‘فسادات کا ماسٹرمائنڈ’ کہا گیا۔ مصدقہ حقائق کے بغیر آ رہی ایسی خبروں کا مقصد صرف ان کی امیج کو خراب کرکے ان کے خلاف ماحول بنانا لگتا ہے۔
کورونا سےپیدا ہوئےبدترین حالات کو سنبھالنے میں مرکزی حکومت کی تمام حکمت عملیاں ناکام ہو چکی ہیں۔حکومت کی اس ناکامی کا خمیازہ کئی نسلوں کو بھگتنا پڑےگا۔
گزشتہ دنوں لاک ڈاؤن میں مہاجر مزدوروں کی صورتحال کو لےکر کچھ سماجی کارکنوں نے سپریم کورٹ میں عرضی دائر کی تھی اور ایک تنظیم کے مزدوروں سے متعلق سروے کے اعدادوشمار پیش کیے تھے۔ اس پر عدالت کا کہنا تھا کہ وہ کسی بھی نجی ادارےکے مطالعہ پر بھروسہ نہیں کرےگی کیونکہ سرکار کی رپورٹ اس سے الگ تصویر پیش کرتی ہے۔
سب جانتے ہیں کہ کووڈ 19 ایک مہلک وائرس کی وجہ سے پھیلا ہے، لیکن ہندوستان میں اس کو فرقہ وارانہ جامہ پہنا دیا گیا ہے۔ آنے والے وقت میں یہ یاد رکھا جائےگا کہ جب پورے ملک میں لاک ڈاؤن ہوا تھا، تب بھی مسلمان فرقہ وارانہ تشددکا شکار ہو رہے تھے۔
عوام کی طرف سے فساد متاثرین کے لئے جو بھی کوششیں کی جارہی ہیں وہ قابل تعریف ہے، لیکن یہ کوئی مستقل حل نہیں ہے۔ فسادات میں سب کچھ کھو دینے والے بے گناہ لوگوں کو حکومت کی طرف سے قابل احترام مدد ملنی چاہیے تھی کہ ان کو سماج کے عطیات پر انحصار نہ کرنا پڑے۔
غیر-بی جے پی مقتدرہ ریاستیں کو شہریت ترمیم قانون کابائیکاٹ کرتے ہوئے اس کو رد کرنے کے لئے سپریم کورٹ کا راستہ اختیار کرناچاہیے۔ ساتھ ہی اس مسئلہ کی جڑ 2003 والی شہریت ترمیم کو بھی رد کرنے کی مانگ کرنی چاہیے۔
کارواں محبّت کے بارے میں بتا رہے ہیں ہرش مندر