Author Archives

افتخار گیلانی

BJP-Facebook-Logo

کارپوریٹ کمپنیاں سوشل میڈیا کے ذریعے جمہوریت کا گلا گھونٹنے کا کام کر رہی ہیں

بی جے پی نے اب اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ ملک سال بھر انتخابی بخار میں مبتلارہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے ہر دوسرے دن ہیجانی مسائل پیدا کیے جاتے ہیں، اور ایک بحث لوگوں پر زبردستی مسلط کی جاتی ہے۔ یہ حجاب پہننے کا مسئلہ ہو سکتا ہے، مسلمان تاجروں کا ہندو عبادت گاہوں کے قریب دکانیں کھولنا یا پھر 1990 میں کشمیری ہندوؤں کے اخراج پر بننے والی فلم کے اوپر گفتگو۔

Pakistan's new Prime Minister Shehbaz Sharif. Photo: Facebook

پاکستان کی نئی حکومت، کشمیر اور ایک نئی رپورٹ

پاکستان میں اب پاکستان مسلم لیگ کے ساتھ پیپلز پارٹی بھی اقتدار میں ہے۔ مسلم لیگ کا ہندوستان میں اور پیپلز پارٹی کا مغربی دنیا میں اچھا خاصا اثر و رسوخ ہے۔ یہ دونوں پارٹیاں اگر اس خیر سگالی کا کشمیری عوام کی مشکلات کو آسان کرنے کے لیے استعمال کریں تو سودا برا نہیں ہے۔

(تصویر: رائٹرس)

جنوبی ایشیا: تباہی کے لیے بس ایک حادثے کا منتظر

ہندوستان کی وزارت دفاع نے پہلے تکنیکی خرابی کا ذکر کرتے ہوئے پلہ جھاڑنے کی کوشش کی، مگر بعد میں پارلیامنٹ میں وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے بتایا کہ میزائلوں کی دیکھ ریکھ کے عمل کو سدھارا جائے گا اور اس کا ازسر نو جائزہ لیا جائےگا۔ یعنی ان کے کہنے کا مطلب تھا کہ یہ میزائل کسی انسانی غلطی کی وجہ سے فائر ہوا ہے اورجلد ہی کسی کو قربانی کا بکرا بنایا جا ئےگا۔

فوٹو : رائٹرس

کہانی کشمیری پنڈتوں کی

جس طرح سے وزیراعظم مودی کے کٹر حامی انوپم کھیر اور متھن چکرورتی کو لے کر وویک اگنی ہوتری نے 1990 میں وادی کشمیر سے کشمیری پنڈتوں کے ہجرت کی کہانی بیان کی ہے، وہ نہ صرف یکطرفہ ہے بلکہ اس سے کشمیری مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلا کر ان کا جینا دوبھر کرایا جا رہا ہے۔

علامتی تصویر، فوٹو: رائٹرس

روس-یوکرین جنگ اور عالمی طاقتوں کی نئی ترجیحات

شایدہندوستان  ہی واحد ملک ہوگا،جو ابھی بھی اسلام، مسلمانوں اور پاکستان کے ایشو کو لےکر سیاسی روٹیاں سینکنے کا کام کررہا ہے۔ دنیا اب آگے نکل چکی ہے، ان ایشوز پر اب شاید ہی کوئی پارٹنر دینا میں اس کو نصیب ہوگا۔ ہاں، چین اور روس کو کسنے […]

سال 2008 کے احمد آباد بم دھماکے (فائل فوٹو: پی ٹی آئی)

احمد آباد بم دھماکہ معاملہ ہو یا کوئی اور دہشت گردانہ واقعہ، عدالت کے فیصلے کو تسلیم کرنے میں تامل کیوں ہونا چاہیے …

ان گنت ایسے واقعات بتاتے ہیں کہ پولیس اصل ملزمین کو گرفتار کرنے کے بجائے معصوم مسلم نوجوانوں کو قربانی کا بکرا بناتی ہے، اس لیے عدالت کے اس فیصلہ کو تسلیم کرنے میں ہچکچاہٹ ہو رہی ہے۔ پولیس نے الزام لگایا تھا کہ گجرات میں 2002 میں ہونے والے فسادات کا انتقام لینے کے لیے یہ دھماکے کیے گئے تھے۔

علامتی تصویر، فوٹو: رائٹرس

تنازع یوکرین: کیا تاریخ دہرائی جا رہی ہے !

یوکرین کے اس قضیہ کو ہندوستان میں خاصی تشویش کے ساتھ دیکھا جا رہا ہے ۔ کیونکہ 1962 میں جب بڑی طاقتیں کیوبا کے میزائل قضیہ کو سلجھانے میں مصروف تھیں ، تو اس کا فائدہ اٹھاکر چین نے ہندوستان پر فوج کشی کرکے اس سے 43000مربع کلومیٹر کا علاقہ ہتھیا لیاتھا ۔

کشمیر پریس کلب، فوٹو بہ شکریہ: مہران بھٹ

کشمیر: کیا پریس کلب پر حملہ صحافت پر قدغن لگانے کا ایک ماڈل ہے…

کشمیر میں حالیہ واقعات اور اس سے قبل بھی یہ بات تو ثابت ہوگئی ہے کہ وہاں کام کرنے والے صحافیوں کو تلوار کی دھار پر چلنا پڑتا ہے۔ مگر 2018کے بعد کشمیر پریس کلب کی صورت میں خطے کے صحافیوں کو ایک آواز ملی تھی۔ یہ شاید واحد صدا تھی، جو صحافیوں کے زندہ ہونے کا ثبوت پیش کر رہی تھی۔

فوٹو: رائٹرس

کشمیر: کیا انکوائری کمیشنوں اور کمیٹیوں نے اب تک انصاف کا گلہ گھونٹا ہے

سال 2018میں اسٹیٹ ہیومن رائٹس کمیشن نے پایا کہ 1990سے کشمیر میں 506مجسٹریل انکوائریا ں تشکیل دی گئی تھیں، ان میں 108انکوائیریوں میں خاطیوں کی نشاندہی بھی کی گئی تھی۔ مگر کسی کے خلاف کارروائی نہیں ہوسکی۔ایک جائزے کے مطابق 2011میں گیارہ، 2012میں آٹھ، 2013میں سات، 2014میں سات، 2015میں دس، 2016میں آٹھ، 2017میں سات اور 2018میں انکوائریوں کا حکم دیا گیا تھا۔ مگر ان سبھی انکوائریوں کا حال ابھی تک پس پردہ ہے۔

علامتی تصویر، فوٹو: پی ٹی آئی

حد بندی کمیشن: کشمیر کے سیاسی تابوت میں آخری کیل

کمیشن نے اسمبلی حلقوں کی نئی حد بندی میں آبادی کے بجائے رقبہ کو معیار بنایا ہے۔ اس کا استدلال ہے کہ چونکہ جموں کا رقبہ26293مربع کلومیٹر، کشمیر کے رقبہ 15940مربع کلومیٹر سے زیادہ ہے، اس لیے اس کی سیٹیں بڑھائی گئیں ہیں۔ اگر یہ معیار واقعی افادیت اور معتبریت رکھتا ہے، تو اس کو پورے ہندوستان میں بھی نافذ کردینا چاہیے۔

علامتی تصویر، فوٹو: رائٹرس

افغانستان: مستقبل کا امیر ترین ملک

ایک سروے کے مطابق افغانستان کے غزنی، ہرات اور نمروز میں تین ٹریلین مالیت کے لیتھیم کے ذخائر موجود ہیں۔ ایسا مانا جارہا ہے کہ اگر افغانستان کو چند سال ہی امن و امان کے ملتے ہیں تو یہ جلد ہی دنیا کے امیر ترین ممالک کی صف میں شامل ہو جائےگا۔ ایک امریکی جریدہ نے تو اس کو لیتھیم کا سعودی عرب بھی قرار دیا ہے۔

اسکرین گریب تصویر: رائٹرس ٹی وی سے

سیالکوٹ کا واقعہ، قومی سلامتی اور اسلامو فوبیا

سیالکوٹ کا واقعہ چیخ چیخ کر یہ پیغام دے رہا ہے۔یہ سچ ہے کہ اس میں کوئی دینی تنظیم ملوث نہیں تھی مگر جن افراد نے یہ قدم اٹھایاوہ کسی کے زیر اثر تو ضرور رہے ہوں گے۔ صرف اس واقعہ کی مذمت کر نا ہی کافی نہیں ہے۔ اس طرح کے واقعات کے تدارک کے لیے عملی اقدامات بھی انتہائی ضروری ہیں۔

فوٹو: پی ٹی آئی

ہندوستان میں کانگریس اور پاکستان میں مسلم لیگ: کیا دونوں نے اپنے اقدار سے سودا کیا ہوا ہے؟

ہندوستان میں تو ویسے موجودہ کانگریس کے اندر1885کی کانگریس کی شبیہ ابھی بھی کسی حد تک نظر تو آتی ہے، مگر پاکستان میں مسلم لیگ کسی بھی حالت میں 1906کی پارٹی کی جان نشیں نہیں لگتی ہے۔

Photo: PTI

کشمیر کی ہیبت ناک کہانیاں

پچھلے تین سالوں میں کشمیر میں حکومتی اور میڈیا سے لیے گئے اعداد و شمار کے مطابق 837 افراد ہلاک ہوئے ہیں، جب میں 172 سیکورٹی فورسز کے اہلکار تھے۔ ان میں سے اکثر افراد کو لائن آف کنٹرول کے پاس ورثاکی موجودگی اور آخری رسومات کے بغیر ہی پولیس نے خود ہی نامعلوم قبروں میں دفن کر دیا ہے۔

فوٹو بہ شکریہ: @trpresidency

ترک ممالک کی تنظیم کا قیام: ایک نئے ورلڈ آرڈر کی نوید

سرحدوں میں تبدیلی اور لوگوں کے درمیان رابطے کے کمزور ہونے کے ساتھ، ترک زبانوں نے مختلف لہجے اور بولیاں جمع کیں اور آہستہ آہستہ وہ اصل زبان سے الگ ہوگئے۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ یہ تنظیم اس زبان کا ایک معیار تیار کرکے اس کو سبھی ممالک میں نافذ بھی کروائے۔

علامتی تصویر، فوٹو: پی ٹی آئی

کشمیر کے گلیشیروں کی تباہی کسی ایٹمی جنگ سے کم نہیں

دہشت گردی یا فوجی کشیدگی یا سرحدی تنازعات، قومی سلامتی کے لیےخطرات تو ہیں مگر ایسا لگتا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیاں، خاص طور پر جب وہ جان بوجھ کر عمل میں لائی جاتی ہوں سے، اس سے بھی شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔اس سے جنگوں سے بھی زیادہ افراد کی ہلاکت کا اندیشہ ہے۔ویسے دونوں ممالک کو چاہیے کہ کم از کم اس معاملے میں ایک دوسرے کے ساتھ اشتراک کرکے خطے کو ماحولیاتی تبدیلی کے طوفان سے بچائیں۔دوسرا طریقہ ہے کہ سارک تنظیم کے ذریعے کوئی میکانزم ترتیب دیا جائے۔

(فوٹو: پی ٹی آئی)

رگھناتھ کستور اور ابن حسام کا کشمیر

کشمیری پنڈتوں اور بہاری مزدوروں کی ہلاکتوں پر پورے ہندوستان میں ایک طوفان سا آگیا ہے۔ کئی مقتدر مسلم رہنمابھی کشمیری مسلمانوں کو باور کرا رہے ہیں کہ اقلیتوں کی حفاظت کے لیے ان کو میدان میں آنا چاہیے۔یہ سچ ہے کہ اقلیت کی سلامتی اور ان کا تحفظ اکثریتی فرقہ کی اہم ذمہ داری ہوتی ہے۔ مگر کشمیر میں اکثریتی طبقہ تو اپنے جان و مال پر بھی قدرت نہیں رکھتا۔ فوجی گرفت کے بیچوں بیچ اْدھار زندگی گزارنے والا کیسے کسی اور کی زندگی کی ضمانت دے سکتا ہے؟

نریندر مودی(فوٹو : پی ٹی آئی)

ہندوستان کا اگلا وزیر اعظم کون؟

بڑا سوال اب ہندوستان میں یہ ہے کہ بی جے پی کے دوبارہ برسر اقتدار آنے کی صورت میں اگلا وزیر اعظم کون ہوگا؟ نئی دہلی میں مغربی ممالک کےسفارت خانےآج کل سیاسی تجزیہ کاروں، لیڈروں اور ہند و قوم پرستوں کی مربی آر ایس ایس کے لیڈران و کارکنان کی تواضع و خاطر مدارت میں لگے رہتے ہیں، تاکہ سن گن لی جاسکے کہ کیا آرایس ایس نریندر مودی کو تیسری بار وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے دے سکتی ہے؟

(فوٹو بہ شکریہ: پی ٹی آئی)

بدعنوانی کی جڑ: الیکشن میں ہوشربا اخراجات

سینٹر فار میڈیا اسٹڈیز کی ایک رپورٹ کے مطابق 2019کے انتخابات میں ہندوستان میں سیاسی پارٹیوں اور الیکشن کمیشن نے کل ملا کر 600بلین روپے خرچ کیے۔ جس میں حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی نے 270بلین روپے خرچ کیے۔ یعنی فی ووٹر 700روپے خرچ کیے گئے ہیں اور ایک پارلیامانی حلقہ میں 100کروڑ یعنی ایک بلین روپے خرچ کیے گئے۔ تقریباً200بلین روپے ووٹروں میں بانٹے گئے، 250بلین روپے پبلسٹی پر خرچ کیے گئے اور 50بلین روپے لاجسکٹکس وغیرہ پر خرچ کیے گئے۔

فائل فوٹو: رائٹرس

انتخابات اور ای وی ایم مشین

اتر پردیش میں 2017 کے اسمبلی انتخابات نے ای وی ایم کو شکوک شبہات کے گھیرے میں مزید دھکیل دیا۔ چونکہ انتخابات وزیر اعظم نریندر مودی کے نوٹ بندی کے اعلان کے بعد منعقد کیے گئے تھے اور ہر جگہ عوام اس پر خار کھائے ہوئے تھے، اس لیے ان انتخابات میں بی جے پی کی بھاری جیت کسی کو ہضم نہیں ہو رہی تھی۔ گراؤنڈ پر کوئی ایسے اشارے نہیں مل رہے تھےکہ بی جے پی کو اس قدر پذیرائی حاصل ہوگی۔

سید علی شاہ گیلانی۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

سید علی گیلانی…ہمارے ابا جی

گیلانی صاحب کے بار بار اسلام و قرآن اور اقبال کے تذکرہ سے بھی کئی لوگ نالاں رہتے تھے مگر ہندوستان میں بائیں بازو کے افراد کے ساتھ ان کے قریبی تعلقات تھے اور وہ بھی ان کو خوب نبھاتے تھے۔ ممبئی میں ایک بار آندھرا پریش کے تعلق رکھنے والے ایک بائیں بازو کے لیڈر نے جن کا کشمیر آنا جانا لگا رہتا تھا اوران کو میری رشتہ داری کا علم نہیں تھا بتایاکہ گیلانی صاحب کشمیر کے گنے چنے مخلص اور سنجیدہ لیڈروں میں سے ہیں۔ وہ مجھے سمجھانے کی کوشش کررہے تھے کہ بطور کشمیری ان کی قدر کروں۔

علامتی تصویر، فوٹو: رائٹرس

سیاسی پناہ کی تلاش میں افغان اشرافیہ

افغانستان میں طالبان کا عروج اور ان کی فتح ملک کے دیہاتوں میں رہنے والے غریب طبقات کی مرہون منت ہے۔ افغانستان کی مغربی طرز کی اشرافیہ حکمرانی میں ناکام رہی۔ وہ افغانستان سنبھال نہ سکی۔ اگر وہ انصاف پہ مبنی معاشرہ قائم کرنے میں کامیاب ہوتے، تو طالبان کی فتح ناممکن تھی۔

علامتی تصویر، فوٹو: رائٹرس

افغانستان: طالبان کو سفارتی سطح پر تسلیم کرنے کی ضرورت کیوں ہے؟

وقت آگیا ہے کہ افغانستان میں اب تاریخ کو آرام کا موقع دےکر کسی بیرونی مداخلت کے بغیر اقتدار افغانوں کے حوالے کیا جائے اور طالبان کو تسلیم کرکے ان کو سفارتی سطح پر انگیج کرکے ان کو باور کرایا جائے کہ ملک اور مدرسہ کو چلانے میں واضح فرق ہے۔

(فائل فوٹو: رائٹرس)

کشمیر اور خطے کی جیو اکانومکس کا خواب

جہاں مغربی اور عرب ممالک ان دنوں ہندوستان کی ناراضگی کے پیش نظر حکومتی سطح پر کشمیر سے دامن بچا کر ہی چلتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ انسانی حقوق کے حوالے سے کوئی بیان جاری کرکے خاموش ہو جاتے ہیں، وسط ایشائی ممالک کشمیر کی صورت حال کے حوالے سے خاصے فکرمند دکھائی دے رہے تھے۔

فوٹو: رائٹرس

کشمیر: آئینی سرجیکل اسٹرائیک کے دو سال

دو سال قبل یہ بھی بتایا گیا تھا کہ پچاس ہزار نوکریاں فوری طور فراہم کی جائیں گی۔تاہم دوسال بعد صورتحال یہ ہے جموں وکشمیر میں بےروزگار نوجوانوں کی تعداد 6لاکھ سے زائد ہے جن میں ساڑھے تین لاکھ کشمیر اور تقریباًاڑھائی لاکھ جموں صوبہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ایک طرف ترقی و خوشحالی کی باتیں ہورہی ہیں تو دوسری جانب عملی طور یہاں روزگار کے مواقع محدود کیے جارہے ہیں۔

افتخار گیلانی، فوٹو بہ شکریہ: فیس بک

پیگاسس جاسوسی اسکینڈل: پوری دنیا کے لیے ایک ویک اپ کال ہے

پیگاسس : جب میرے فون کی فارنسک جانچ کی تو معلوم ہو اکہ 2017سے ہی اس کو ٹارگیٹ کیا گیا ہے اور 2019 تک اس میں سے وقتاً فوقتاً فون کالز کے ساتھ ساتھ ڈیٹا بھی حاصل کیا گیا ہے۔ یہ وہی مدت تھی جس کے دوران کشمیر پر دبئی کی ٹریک ٹو کانفرنس کا تنازعہ کھڑا ہوا اور سوشل میڈیا پر ایک طوفان بدتمیزی اور دھمکیوں کے ایک سلسلہ کے بعد 2018 میں رفیق اور کشمیر کے معروف صحافی شجاعت بخاری کو قتل کیا گیا اور اس دوران مجھے بھی تختہ مشق بنایا گیاتھا۔

علامتی تصویر، فوٹو: رائٹرس

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے انتخابات کے تئیں سرینگر میں عدم دلچسپی کیوں؟

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں فی الوقت انتخابی سرگرمیاں عروج پر ہیں۔ 724 امیدوار 25 جولائی کو 45 انتخابی حلقوں میں قسمت آزمائی کر رہے ہیں۔ ان میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے 33حلقوں سے 602 امیدوارجبکہ مہاجرین مقیم پاکستان کے 12 انتخابی حلقوں سے 122 امیدوار میدان میں ہیں۔

فوٹو: بہ شکریہ ٹوئٹر@MirwaizKashmir

کشمیر: مظلوم عوام کی بیداری کی 90 ویں سالگرہ

سال 2019سے سرکاری طور پر ان شہدا کو نظر انداز کرکے یہ ثابت کر دیا گیا کہ عوام ابھی بھی حقیقی آزادی سے محروم ہیں۔ وہ ابھی اپنے خوا بوں اور خواہشوں کے مطابق نظام حیات تعمیر نہیں کرسکے جس کے لیے بے انتہا قربانیاں دی گئیں۔

علامتی تصویر، فوٹو: رائٹرس

جموں و کشمیر: قضیہ دارالحکومت کا

موجودہندو قوم پرست حکومت کوئی بھی قدم خلاف مصلحت نہیں اٹھاتی ہے، اسی لیے اس پر چہ می گوئیاں شروع ہو گئی ہیں اور بتایا جا تاہے کہ بیک ڈور سے سرینگر سے دارالحکومت کا درجہ چھین کر جموں کو دیا گیا ہے۔ ویسے بھی مرکزی حکومت کے کئی اہم ادارے برسوں قبل اپنے دفاتر مستقل طو پر جموں منتقل کر چکے تھے۔

فوٹو: اے این  آئی

کشمیری رہنماؤں سے مودی کی ملاقات؛ یہ منظر اور اس کا پس منظر کیا بولتا ہے

پچھلے دو سالوں سے دنیا بھر میں ہندوستانی سفیر وہ نہیں کر پائے جو 24جون دن کے تین بجے وزیر اعظم نریندر مودی کی سرکاری رہائش گاہ پر اس گروپ فوٹو نے کیا، جس کی پہلی قطار میں وزیراعظم، ان کے دست راست وزیر داخلہ امت شاہ، ڈاکٹر فاروق عبداللہ ان کے فرزند عمر عبداللہ اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی سربراہ محبوبہ مفتی کے ہمراہ نظر آئے۔