سوال یہ ہے کہ رام مندر کے حوالے سے 2019 میں سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد مودی حکومت پورے چار سال تک ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر کیوں بیٹھی رہی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ 2024 کے عام انتخابات سے صرف چند دن پہلے ہی رام للا کی پران-پرتشٹھا کے بہانے ہندوتوا کا ڈنکا بجا کر ووٹوں کی لہلہاتی فصل کاٹنا آسان ہو جائے اس لیے۔
اتراکھنڈ کی بنیاد رکھنے والی بی جے پی کے ماتھے پر سب سے بڑا داغ یہ لگا ہے کہ بھاری اکثریت سے سرکار چلانے کے باوجود اس نے دس سال کے اقتدار میں صوبے پر سات وزیر اعلیٰ تھوپ ڈالے ۔ پارٹی کی ناکامی یہ بھی ہے کہ اب تک اس کا کوئی بھی وزیر اعلیٰ اپنی مدت پوری نہیں کر سکا۔
موجودہ وائس چیئر مین پی جے کورین کی مدت 30 جون کو ختم ہو رہی ہے۔ ان کی جگہ نئے وائس چیئر مین کا انتخابی عمل پارلیامنٹ کے آئندہ سیشن کے بیچ میں ہونا ہے۔
کرناٹک کی بازی اگر ہاتھ سے چھوٹی تو اس سے پیدا ماحول سے راجستھان اور مدھیہ پردیش جیسی مشکل ریاستوں میں بی جے پی کے لئے اپنی حکومتیں بچا پانا مشکل ہوگا۔ اگر ریاستوں میں حکومتیں گرنے کا سلسلہ آگے بڑھا تو 2019 میں مودی اکیلے اپنے دم پر حالات کو بےقابو ہونے سے نہیں بچا پائیںگے۔
اگر لوک سبھا اسپیکر یا پریسائڈنگ آفیسر کسی بہانے ایسے واجب عدم اعتماد تجویز پر عمل کرنے سے انکار کر دے تو پھر پارلیامانی جمہوریت پر ٹکے ہمارے نظام پر کون بھروسا کرےگا؟
تقریباً تمام حکومتیں کہیں نہ کہیں آزاد میڈیا اور ایمانداری سے کام کرنے والے صحافیوں اور میڈیا ادارہ سے گھبراتی ہیں۔ ان کو اپنی غلط پالیسیوں اور فیصلوں کی تنقید ذرا بھی برداشت نہیں ہوتی۔