فکر و نظر

انتخابات میں دھرم اور بھگوان کو برانڈ ایمبیسیڈر بنا دینے سے آئین اور ملک کا تحفظ کیسے ہوگا؟

سوال یہ ہے کہ رام مندر کے حوالے سے 2019 میں سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد مودی حکومت پورے چار سال تک ہاتھ پر ہاتھ  رکھ کر کیوں بیٹھی رہی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ 2024 کے عام انتخابات سے صرف چند دن پہلے ہی رام للا کی پران-پرتشٹھا کے بہانے ہندوتوا کا ڈنکا بجا کر ووٹوں کی لہلہاتی فصل کاٹنا آسان ہو جائے اس لیے۔

وزیر اعظم نریندر مودی۔ (تصویر بہ شکریہ: فیس بک)

وزیر اعظم نریندر مودی۔ (تصویر بہ شکریہ: فیس بک)

بات 4 نومبر 1989 کی ہے۔مقام دہلی میں کانگریس کا صدر دفتر تھا، جب کانگریس پارٹی کا انتخابی منشور جاری کیا گیا تھا۔ اس وقت کے کانگریس صدر اور وزیر اعظم راجیو گاندھی صرف ایک دن پہلے ایودھیا-فیض آباد میں انتخابی ریلی کا آغاز کرکےآئے تھے۔

شاہ بانو کیس اور ایودھیا میں متنازعہ بابری مسجد احاطہ میں رام جنم بھومی کا تالا کھلوانے کے بعد وہ پہلی انتخابی ریلی اس لیے بے ساختہ  یاد آتی ہےکہ اس میں راجیو گاندھی نے اعلان کیا تھا کہ اگر کانگریس اقتدار میں واپس آئی تو ملک میں رام راجیہ قائم کیا جائے گا۔

یہ اور بات ہے کہ کانگریس نومبر 1989 کے عام انتخابات میں 198 لوک سبھا سیٹیں جیت کر بھی اقتدار میں واپس نہیں آ سکی۔ اس کے بعد وی پی سنگھ اور چندر شیکھر کی قیادت میں کانگریس کی مخالفت اور حمایت سے قائم ہونے والی یکے بعد دیگرے دو حکومتیں گر گئیں اور 1991 میں لوک سبھا کے وسط مدتی انتخابات نے مرکز میں پی وی نرسمہا راؤ کی اقلیتی حکومت نے کانگریس کے لیے اقتدار میں آنے کا راستہ کھول دیا۔

راجیو گاندھی کی ایودھیا-فیض آباد ریلی کے ٹھیک اگلے دن انتخابی منشور جاری کرنے کا پروگرام تھا۔ اس موقع پر ہوئی پریس کانفرنس کے بعد صحافیوں کے جواب میں رام راجیہ کی تعریف کے سوال پر راجیو گاندھی کچھ  مضطرب ہوگئے تھے۔

ان سے سوال یہ تھا کہ ایک دن پہلے ایودھیا میں جس رام راجیہ کے لانے کا اعلان وہ کر آئے ہیں،اسی طرح کا اعلان وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی ) اور راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) بھی کر رہے ہیں۔

اسی طرح ماضی میں مہاتما گاندھی نے بھی ملک میں رام راجیہ کے قیام کا خواب دیکھا تھا۔ ایسے میں ان کے رام راجیہ اور آپ کے رام راجیہ میں فرق  کیا ہے، تو اس کے جواب میں راجیو گاندھی نے کہا تھا کہ ہمارا رام راجیہ لانے کا اعلان کانگریس اور ہمارے نظریے کے مطابق ہوگا۔

ساڑھے تین دہائیوں کے اس طویل سفر میں گنگا، جمنا اور سریو میں نہ جانے کتنا پانی بہہ چکا ہو گا۔

بہت سے مفکرین اور مبصرین اس بات پر کامل یقین رکھتے ہیں کہ رام مندر تحریک کے بعد جب سپریم کورٹ نے چار سال قبل (2019) ہندو آستھا اور عقیدے کے احترام میں  رام مندر کے حق میں فیصلہ دے دیا ، تو اب نئے سرے سے مذہب اور آستھا کے درمیان فرق اور اختلافات کی خلیج کو ختم کرنے کے بجائے اسے مزید وسیع کرنے سے نفرت میں اور اضافہ ہو سکتا ہے۔ اس سےمذہبی ہم آہنگی، بھائی چارے اور رواداری کے ہندوستانی طرز اسلوب کو متاثر ہونے سے کیسے روکے جا سکے گا؟

آج ٹھیک 34 سال بعد کانگریس نے ایودھیا میں رام مندر کی پران-پرتشٹھا میں  جانااس لیے قبول نہیں کیا کہ رام راجیہ لانے کے تصور کے بارے میں اس کی سوچ مختلف ہے۔

ظاہر ہے کہ اس دور میں  پہلے رام مندر کے تالے کھلوانے اور بعد میں متنازعہ مقام پر سنگ بنیاد رکھنے کے واقعات کی وجہ سے اقلیتوں اور متوسط طبقے میں کانگریس کا ووٹ بینک کمزور ہو گیا اور اس کے بعد مندر اور منڈل کی سیاست کے بیابان میں کانگریس اپنے وجود کی تلاش میں بھٹکتی چلی گئی۔

مذہب اور سیاست کے اس طوفان کے بعد ملک اور ہندوستان کی آنے والی نسلوں کو مذہب کی سیاست اور سیاست کے دھرم کی  باریکیوں کو سمجھانا ایک بڑا چیلنج ہے۔

یہ سنجیدہ نظریاتی مخالفت ساڑھے تین دہائیوں کے بعد بھی کانگریس کو سنگھ پریوار اور بی جے پی کی مذہبی سیاست کی آڑ میں فرقہ وارانہ جنون پیدا کرنے کی بدنیتی پر مبنی سیاست سے الگ کرتی ہے۔

اگر کانگریس نے 22 جنوری کو پران-پرتشٹھا پروگرام سے خود کو دور کر لیا تو اس کی کئی اہم وجوہات ہیں۔ یہ کانگریس کے لیے جوکھم اور داؤ دونوں ہے۔ یعنی کرو یا مرو کی لڑائی کی طرح۔

اس سچائی کو کیسے چھپایا جائے گا کہ جب 9 نومبر 2019 کو سپریم کورٹ نے ایودھیا کیس میں اپنا حتمی فیصلہ سنا دیا تھا، اس وقت یہ سوال اٹھنا فطری ہے کہ آدھے ادھورے  مندر میں ہی پران -پرتشٹھاکرنی تھی تو پھر سپریم کورٹ کافیصلہ آنےکے بعد پورے چار سال تک مودی حکومت ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر کیوں بیٹھی رہی!

لوگوں کے پاس اس کا سیدھا سا جواب یہی ہے کہ مودی سرکار پورے چار سال اس لیے آنکھیں بند کرکے بیٹھی رہی کہ 2024 کے عام انتخابات سے چند دن قبل ہی رام للا کی پران -پرتشٹھا کے بہانےاس معاملے کو ہندوتوا کا ڈنکا بجا کر ووٹوں کی لہلہاتی فصل کاٹنے کو ہر قیمت پر آسان بنایا جا سکے۔

درحقیقت، بی جے پی یا سنگھ پریوار کے پاس اس بات کا کوئی جواب نہیں ہے کہ جس طرح ادھورے بنے مندر میں 22 جنوری کو پران-پرتشٹھا ہونے جا رہی ہے، اس جگہ پر وہ کام زیادہ سے زیادہ ایک سال کے اندر یعنی 2020 تک کیوں نہیں کرایا جا سکتا تھا؟

اس بات کو دہرانے کی ضرورت نہیں ہے کہ متنازعہ مقام پر رام مندر کی تعمیر کے لیے زمین ہندوؤں کے حوالے کرنے اور مسلمانوں کو عبادت کے لیے وہاں سے 25 کلومیٹر دور مسجد کی تعمیر کے لیے زمین الاٹ کرنے کے سپریم کورٹ کے فیصلے کو تمام فریقوں نے مان لیا تھا۔ کئی صدیوں پر محیط تنازعہ کو ہمیشہ کے لیے ختم سمجھ کر ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور بھائی چارے کو مضبوط بنانے کی نئی شروعات ہوسکتی تھی۔

مندر کے حق میں فیصلہ آنے سے پہلے ملک کی سیاست کی سمت دراصل مذہبی جذبات سے الگ اُن مسائل پر مرکوز کرنی چاہیے تھی، جس سے ملک کے نوجوانوں اور آنے والی نسلوں کا مستقبل محفوظ اور بہتر ہو سکے۔

طویل عدالتی لڑائی کے بعد مندر کے تنازعہ کے پرامن حل کے باوجود، بی جے پی کے جارحانہ ہتھکنڈوں سے عام لوگوں کو یہی محسوس ہوتا ہے کہ وہ مندر کی تعمیر آئندہ عام انتخابات کے مد نظر ہندو ووٹروں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے مقصد سے مذہب اور سیاست کے گھال میل کے ایسے کھیل کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔

دوسری طرف مہنگائی، بدعنوانی کے علاوہ نومبر 2016 میں کالے دھن اور دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر دنیا کی اتنی بڑی معیشت پر اچانک مسلط ہونے والی نوٹ بندی اور اس طرح کی بہت سی لایعنی، غلط اور گمراہ کن پالیسیوں کا خمیازہ عوام کو برسوں تک بھگتنا پڑے گا۔

اقتدار کے نشے اور اکثریت کی آڑ میں پارلیامنٹ میں بہت سے اہم فیصلے اور بل بغیر کسی معنی خیز بحث اور رائے عامہ کے نافذ کیے جانے اور ناکامیوں پر جب اپوزیشن اور عوام الناس سوال پوچھنے لگ جائے  تو پھر ہر اقدام کو قومی مفاد اور قوم پرسے جوڑ دینا ایک شغل بنا دیا گیا ہے۔

انتخابات کی خاطر بی جے پی اور آر ایس ایس نے پرنٹ، ٹی وی میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے ایسا جنونی ماحول پیدا کر دیا ہے، جس کا مقابلہ کرنا اپوزیشن یا عام لوگوں کے بس کی بات نہیں۔

یہ ماحول 22 جنوری کو مرکزی تقریب کے بعد بھی ہرگز رکنے والا نہیں ہے۔ اس کے بعد عام انتخابات اور ووٹنگ کی تاریخ تک رام مندر تحریک کی مکمل کہانیاں بنا کر لوگوں کے جذبات کو ابھارنے کے لیے ہر گھر تک پہنچنے کا ایک روڈ میپ تیار کر لیا گیا ہے۔

کیا ہندوستان کا آئین یا الیکشن کمیشن کے قواعد و ضوابط اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ جب ملک میں انتخابات ہونے والے ہیں تو مذہب کے نام پر ووٹ مانگے جائیں؟ مذہب اور بھگوان کو اپنا برانڈ ایمبیسیڈر بنانے کی دوڑ کہاں جا کر رکے گی؟

ستم ظریفی یہ ہے کہ جن لوگوں نے ذات پات اور مذہب سے اوپر اٹھ کر سیکولر آئین کا حلف اٹھایا ہے، وہی لوگ اقتدار میں رہنے کے لیے آئینی اقدار کو پامال کریں گے، تو کثیر لسانی ریاستیں اور مختلف مذاہب پر یقین رکھنے، ایک دوسرے کے مذہبی عقائد کااحترام کرنے اور دوسروں کے مذہبی جذبات اور مذہبی تعلیمات کی اچھی چیزوں کو قبول کرنے والے ہندوستان کے لوگ  کہاں اپنا ٹھکانہ تلاش کریں گے؟

(اوماکانت لکھیڑاسینئر صحافی ہیں۔)