وہ جو چاند تھا سر آسماں: داستانِ عشق
اگر کوئی مجھ سے کہے کہ اس کتاب کی خصوصیت کو ایک جملے میں بتائیں ، تو میں کہوں گا کہ اس کتاب میں شمس الرحمن فاروقی کو دوسروں کی زبان سے کم خود مرحوم کی اپنی زبان سے زیادہ یاد کیا گیا ہے ۔
اگر کوئی مجھ سے کہے کہ اس کتاب کی خصوصیت کو ایک جملے میں بتائیں ، تو میں کہوں گا کہ اس کتاب میں شمس الرحمن فاروقی کو دوسروں کی زبان سے کم خود مرحوم کی اپنی زبان سے زیادہ یاد کیا گیا ہے ۔
مجھے اعتراف ہے کہ میں ان لوگوں میں شامل ہوں جنہیں فاروقی صاحب نے بھارت میں متعارف کروایا۔ میرے ناول’’مٹی آدم کھاتی ہے‘‘ کا دیباچہ لکھا۔ میرے افسانے ’’شب خون‘‘ میں شائع کیے۔ اور جب ایک درسی کتاب ’’انتخاب نثر اردو ‘‘ کو مرتب کرنے کا موقع نکلا تو پاکستان سے انہوں نے دو افسانہ نگاروں کے افسانے اس کا حصہ بنائے ؛ انتظار حسین کا ’’بادل‘‘ اور اس خاکسار کا ’’لوتھ‘‘۔
خصوصی تحریر: میرے الٰہ آباد کے اس مسلسل سفر میں فاروقی صاحب سے ہونے والی ملاقاتوں کا حاصل یہ ہے کہ میں نے انھیں ان مضامین کی فہرست تیار کرنے پر آمادہ کرلیا تھا، جو شائع نہیں ہوئے تھے۔ ان مضامین میں بڑی تعداد انگریزی تحریروں کی تھی […]
آج میرے سر سے ایک سایہ پھر سے اٹھ گیا، آج پھر سے یتیمی کا احساس شدید تر ہوتا چلاگیا۔ آج پھر کوئی ‘ بولو بیٹا’ کہنے والا نہیں رہا۔ ایک پھر میں اسی صدمے سے دوچار ہوں جب اپنے والد کی محبتوں سے محروم ہوئی تھی ۔
اردو شاعری خصوصاً جدید اردو شاعری میں دلچسپی رکھنے والوں کو یہ کتاب ضرور پڑھنی چاہیے ـ۔
ادبی میدان میں عورت اور مرد کی تخصیص انھیں قطعی نا پسند تھی۔ عینی نے اپنی ساری زندگی عورت سے جڑےان ٹیبوز کو توڑا جس کے تحت عورت کمزور تصور کی جاتی ہے اور بغیر ہم سفر کے اس دنیا میں اس کا رہنا تقریباً ناممکن تصور کیا جاتا ہے۔
گزشتہ سال شائع ہونے والی ان کی کتاب The Greatest Urdu Stories Ever Told بھی انگریزی حلقوں میں کافی پسند کی گئی تھی۔