این سی آر بی رپورٹ کے مطابق، 2015-2017 کے دوران بھی جیل میں صلاحیت سے زیادہ قیدی تھے۔اس مدت میں قیدیوں کی تعداد میں 7.4فیصد کا اضافہ ہوا،جبکہ اسی مدت میں جیل کی صلاحیت میں 6.8 فیصد کا اضافہ ہوا۔
پاکستان کی موجودہ صورت حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پاکستانی سول سوسائٹی کے ممبروں نے کہا کہ عوام کے شہری، انسانی، معاشی اور سماجی حقوق کو کچلا جا رہا ہے۔
فوجی افسروں کی بیٹیوں کی طرف سے داخل عرضی میں کہا گیا ہے کہ پتھراؤ کرنے والوں کے خلاف سیلف ڈیفنس کے لئے کی گئی کارروائی پر بھی معاملے درج کئے جا رہے ہیں۔اس طرح کے واقعات کو لے کر وہ پریشان ہیں۔
سال 2018 کشمیر میں اس دہائی کا سب سے خونی اور تشدد آمیز سال ثابت ہوا ہے، جس میں کم سے250 ملیٹنٹ، 90 سکیورٹی اہلکار اور 50 سے زائد عام شہری ہلاک ہو گئے۔
عدالت نے کہا،’ تمام چیزوں کا مذاق بنا دیا گیا ہے۔ کیا قیدیوں کے کوئی حقوق نہیں ہیں؟ مجھے نہیں معلوم کہ افسروں کی نظر میں قیدیوں کو انسان بھی مانا جاتا ہے یا نہیں۔‘
جسٹس امیتاؤ رائے کی صدارت والی یہ کمیٹی خاتون قیدیوں سے متعلق معاملوں کو بھی دیکھےگی۔ سپریم کورٹ ملک کی 1382 جیلوں میں قیدیوں کی حالت سے متعلق مدعوں کی سماعت کر رہی ہے۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ جیل افسر جیلوں کے زیادہ بھرے ہونے کے مدعے کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے ہیں۔ ایسی کئی جیلیں ہیں جو متعینہ تعداد سے 100 فیصد اور کچھ معاملوں میں تو 150 فیصد سے زیادہ بھری ہیں۔
9 اپریل 2017 کو فوج کے ذریعے جیپ پر باندھکر گھمائے گئے فاروق احمد ڈار سال بھر بعد بھی اپنی عام زندگی میں لوٹنے کے لئے جوجھ رہے ہیں۔
کان کنی، کرشر، بالو ڈھلائی وغیرہ کے شعبوں میں کام کرنے والے مزدور اس بیماری کی چپیٹ میں آتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق، 2013-14 میں سیلکوسس کی وجہ سےراجستھان میں مرنے والوں کی تعداد جہاں ایک تھی، وہیں2016-17 میں بڑھکر 235 ہو گئی۔
حکومت نے ایک ڈیٹا تحفظ قانون کا خاکہ تیار کرنے کے لئے جسٹس بی این سری کرشناکی صدارت میں ایک کمیٹی بنائی ہے۔ یہ کمیٹی ابھی مشاورت کے عمل میں ہے۔