مودی سرکار کی جانب سے 5 اگست 2019 کو جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے سے ایک دن قبل سرکردہ ریاستی رہنماؤں کو نظر بند کر دیا گیا تھا، جن میں حریت کانفرنس کے سینئر رہنما میر واعظ عمر فاروق بھی تھے۔ حریت کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ ریاستی حکام نے میر واعظ پر لگائے گئے الزامات کی تفصیلات بتانے سے انکار کردیا ہے۔
نیشنل کانفرنس کے رہنما عمر عبداللہ نے کہا کہ جموں و کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کرتے ہوئے دلیل دی گئی تھی کہ آرٹیکل370کی وجہ سے ریاست میں دہشت گردانہ واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ اگر ایسا ہی تھا تو ایک سال بعد مرکزی حکومت سپریم کورٹ میں یہ کیوں کہہ رہی ہے کہ یہاں تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔
امریکہ کی خاتون رکن پارلیامان کن ڈیبی ڈنگیل نے کہا ہے کہ جموں و کشمیر میں غیرمنصفانہ طریقے سے ہزاروں لوگوں کو حراست میں لیا گیا ہے اور لاکھوں لوگوں کی پہنچ انٹرنیٹ اور ٹیلی فون تک نہیں ہے۔
ہندنژاد-امریکی رکن پارلیامان پرمیلا جئے پال نے امریکی پارلیامنٹ میں جموں و کشمیر پر ایک تجویز پیش کرتے ہوئے ہندوستان سے وہاں لگائی گئی مواصلات پر پابندیوں کو جلد سے جلد ہٹانے اور سبھی باشندوں کی مذہبی آزادی محفوظ رکھے جانے کی اپیل کی۔
جموں و کشمیر سے خصوصی ریاست کا درجہ ہٹانے کے 89 ویں دن بھی بند جاری۔نیشنل کانفرنس نے جموں و کشمیر کو یونین ٹریٹری بنانے کے مرکزی حکومت کے قدم کو غیر آئینی قرار دیا۔ وادی میں کچھ لوگوں نے حکومت پر ان کا خصوصی درجہ اور پہچان چھیننے کا الزام لگایا۔
کٹرا میں ماتا ویشنو دیوی یونیورسٹی کے ساتویں کنووکیشن کو خطاب کرتے ہوئے جموں و کشمیر کے گورنر ستیہ پال ملک نے کہا کہ میں نے خفیہ ایجنسیوں سے بھی ان پٹ نہیں لیا۔ وہ بھی دہلی یا ہمیں سچ نہیں بتا رہے ہیں۔
رہائی کی شرط کے طور پر حراست میں لئے گئے لوگوں کو یہ وعدہ کرنا پڑ رہاہے کہ وہ ایک سال تک جموں و کشمیر کے حالیہ واقعات کے متعلق نہ تو کوئی تبصرہ کریںگے اور نہ ہی کوئی بیان جاری کریںگے۔
انتظامیہ کی طرف سے تقریباً 3000 لوگوں کو حراست میں لیا گیا ہے ان میں جمو ں و کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی ،فاروق عبداللہ اور عمر عبداللہ بھی شامل ہیں۔ حالانکہ ان میں سے دو تہائی لوگوں کو رہا کر دیا گیا ہے لیکن ابھی بھی تقریباً 1000 لوگ حراست میں ہیں۔