نوٹ بندی اور جی ایس ٹی لائے جانے کے دو سال بعد مرکزی حکومت نے مائیکرو، چھوٹے اور درمیانے درجے کی صنعتوں پر ان دونوں کے اثرات کے بارے میں پارلیامنٹ کو گمراہ کیا ۔ سرکار کی یقین دہانیوں سے متعلق پارلیامانی کمیٹی نے گمراہ کن بیانات اور مکمل سچ نہ بتانے کے لیے سرکار کی سرزنش کی تھی اور دونوں فیصلوں سے ہوئے نقصان کا فیکٹ چیک بھی کیا تھا۔
مرکزی حکومت نے 2016 میں 1000 اور 500 روپے کے نوٹوں کو چلن سے باہر کر دیا تھا۔ اس فیصلے کا ایک اہم مقصد جعلی نوٹوں کے مسئلے کو ختم کرنا تھا۔ این سی آر بی کی رپورٹ کے مطابق، ملک میں 2016 سے 2021 کے درمیان 245.33 کروڑ روپے کے جعلی نوٹ ضبط کیے گئے۔ 2020 میں سب سے زیادہ 92.17 کروڑ روپے کے جعلی نوٹ پکڑے گئے تھے۔
نوٹ بندی پر اکثریت سے الگ اپنے فیصلے میں جسٹس بی وی ناگ رتنا نے مودی حکومت کے اس قدم پر کئی سوال اٹھائے۔ ان کا کہنا ہے کہ نوٹیفکیشن جاری کرنے کے بجائے پارلیامنٹ میں بحث ہونی چاہیے تھی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ آر بی آئی نے اس بارے میں آزادانہ طور پر غوروفکرنہیں کیا اور پوری قواعد 24 گھنٹے میں پوری کی گئی۔
ایک میڈیا رپورٹ میں نوٹ بندی کے فیصلہ سازی کے عمل کا حصہ رہے اہلکار کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ ریزرو بینک آف انڈیا کے سینٹرل بورڈ میں اس موضوع پر ڈھنگ سے تبادلہ خیال نہیں کیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ نے گزشتہ سوموار کو مودی حکومت کے 2016 میں لیے گئے نوٹ بندی کے فیصلے کے خلاف دائر کئی عرضیوں کی سماعت کرتے ہوئے اس فیصلے کو 4:1 کی اکثریت سے درست قرار دیا تھا۔
مودی حکومت کے 2016 میں نوٹ بندی کے فیصلے کے خلاف کئی عرضیوں کی سماعت کر رہی سپریم کورٹ کی بنچ نے اسے جائز ٹھہراتے ہوئے کہا کہ نوٹ بندی کا مقصد کالا بازاری ،ٹیرر فنڈنگ وغیرہ کو ختم کرنا تھا، یہ بات غیر متعلق ہے کہ ان مقاصد کو حاصل کیا گیایا نہیں۔
گزشتہ ماہ مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ میں ایک حلف نامہ داخل کرتے ہوئے کہا تھا کہ نوٹ بندی کا فیصلہ آر بی آئی کے مرکزی بورڈ کی خصوصی سفارش پر لیا گیا تھا۔ تاہم، آر ٹی آئی کے ذریعے سامنے آنے والے نتائج مرکزی حکومت کی طرف سے عدالت عظمیٰ میں پیش کیے گئے اس حلف نامے کے برعکس ہیں۔
سپریم کورٹ مودی حکومت کے نوٹ بندی کے فیصلے کو چیلنج دینے والی متعدد عرضیوں پر سماعت کر رہی ہے۔ اس سلسلے میں ایک حلف نامہ پیش کرتے ہوئے مرکزی حکومت نے کہا ہے کہ نوٹ بندی کے بارے میں اس نے فروری 2016 میں آر بی آئی کے ساتھ بات چیت شروع کی تھی اور اسی کے مشورے پر یہ فیصلہ لیا گیا۔
مودی حکومت کےنوٹ بندی کے فیصلے کو چیلنج کرنے والی 58عرضیوں کو سپریم کورٹ کی آئینی بنچ سےمرکزی حکومت کی جانب سے پیش ہوئےاٹارنی جنرل نے حلف نامہ تیار نہ ہونے کی بات کہتے ہوئے کارروائی ملتوی کرنے کو کہا تھا۔ عدالت نے کہا کہ آئینی بنچ اس طرح سے کام نہیں کرتی اور یہ انتہائی تکلیف دہ صورتحال ہے۔
سپریم کورٹ کی آئینی بنچ نے سوال کیا کہ کیا حکومت اور ریزرو بینک آف انڈیا نے 2016 میں 500 اور 1000 روپے کے نوٹوں کو بند کرنے کی پالیسی کے ذریعے کالے دھن، ٹیرر فنڈنگ اور جعلی کرنسی کو روکنے کے اپنے بیان کردہ مقاصد کو حاصل کرلیا ہے؟
نوٹ بندی کے غیرمتوقع فیصلے کے ذریعے بات چاہے کالے دھن پر روک لگانے کی ہو، معاشی نظام سے سے نقد کو کم کرنے یا ٹیکس جی ڈی پی تناسب بڑھانے کی،اعدادوشمار مودی حکومت کے حق میں نہیں جاتے۔
سرکار نے نجکاری کے لیے جن چار بینکوں کا انتخاب کیا ہے وہ بینک آف مہاراشٹر، بینک آف انڈیا، انڈین اوورسیز اور سینٹرل بینک آف انڈیا ہیں۔ سرکار کا یہ قدم اس کے اس بڑےمنصوبے کا حصہ ہے جس کے تحت وہ سرکاری املاک کو بیچ کر ریونیو بڑھانے کی تیاری کر رہی ہے۔
ویڈیو: بینکوں کے انضمام اور نجکاری کے خلاف ملک بھر کی بینکوں کی تنظیموں نے دہلی کے جنتر منتر پر مظاہرہ کیا ۔ مظاہرین سے وشا ل جیسوال کی بات چیت۔
حالیہ دنوں میں سوشل میڈیا پر خبر آئی تھی کہ آر بی آئی مستقل طور پر نو بینکوں کو بند کر رہا ہے اور اس نے لوگوں سے ان بینکوں سے اپنے پیسے واپس لینے کی اپیل کی ہے۔ریزرو بینک نے اس کو جھوٹ قرار دیا ہے۔
کانگریس لگاتار نوٹ بندی کو ایک بڑا گھوٹالہ بتاتی آئی ہے۔ کانگریس ترجمان رندیپ سرجےوالا نے ایک رپورٹ ٹوئٹ کر کے حکومت پر نوٹ بندی کی آڑ میں بدعنوانی کا الزام لگایا ہے۔
ریزرو بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق 2000 روپے اور 500 روپے کے نقلی نوٹوں میں 21.9 فیصدی اور 221 فیصدی کا اضافہ ہوا ہے۔ وہیں 200 روپے کے نقلی نوٹوں میں 161 گنا کا اضافہ ہوا۔
راجیہ سبھا میں وزیر خزانہ نرملا سیتارمن کے ذریعے دیے گئے تحریری جواب کے مطابق نوٹ بندی سے پہلے چار نومبر، 2016 تک 17.97 لاکھ کروڑ روپے کی کرنسی چلن میں تھی، لیکن اب یہ رقم بڑھکر 21.71 لاکھ کروڑ روپے ہو گئی ہے۔
نوٹ بندی سے پہلے 4 نومبر، 2016 تک 17.97 لاکھ کروڑ روپے کی کرنسی چلن میں تھی، لیکن اب 19.44 فیصدی کے اضافہ کے ساتھ یہ رقم بڑھکر 21.41 لاکھ کروڑ روپے تک پہنچ گئی ہے۔ یہ دکھاتا ہے کہ اقتصادی نظام میں نقدی واپس آ گئی ہے۔
آر ٹی آئی سے ملی جانکاری میں سامنے آیا ہے کہ آر بی آئی ڈائریکٹر بورڈ نے نوٹ بندی کےاثر کو لےکر مودی حکومت کو آگاہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ نوٹ بندی سے بلیک منی کے مسئلہ پر کوئی پختہ اثر نہیں ہوگا۔
گزشتہ سال اگست میں کیرل میں آئے سیلاب کے دوران ایڈوکی اور تریشور ضلع سب سے زیادہ متاثر ہوئے تھے۔گزشتہ 2 مہینے میں ایڈوکی ضلع میں 8 جبکہ تریشور ضلع میں 1 کسان نے خودکشی کر لی۔
غور طلب ہے کہ جیل بھیجے گئے کسان چھوٹے اور حاشیے کے وہ کسان ہیں جو کہ پنجاب حکومت کی قرض معافی کی اسکیم کے تحت آتے ہیں۔
85سالہ اکانومسٹ اور نوبل ایوارڈ یافتہ امرتیہ سین نے کہا کہ ملک میں آئینی اداروں پر حملہ ہورہے ہیں۔اظہار رائے کی آزادی پر پابندی عائد کی جارہی ہے ،یہاں تک کہ صحافیوں کو پریشان کیا جارہا ہے۔
حکومت سرکاری بینکوں میں ایک لاکھ کروڑ روپے کیوں ڈال رہی ہے؟ کسان کا لون معاف کرنے پر کہا جاتا ہے کہ پھر کوئی لون نہیں چکائےگا۔ یہی بات صنعت کاروں کے لئے کیوں نہیں کہی جاتی؟
مودی حکومت کے 4 سالوں میں21سرکاری بینکو ں نے 3 لاکھ 16 ہزار کروڑ کے لون معاف کئے ہیں۔یہ ہندوستان کی صحت، تعلیم اور سماجی تحفظ کے کل بجٹ کا دو گنا ہے۔ سخت اور ایماندار ہونے کا دعویٰ کرنے والی مودی حکومت میں تو لون وصولی زیادہ ہونی چاہیے تھی، مگر ہوا الٹا۔ ایک طرف این پی اے بڑھتا گیا اور دوسری طرف لون وصولی گھٹتی گئی۔
آل انڈیا بینک آفیسرز کنفیڈریشن نے کہا کہ اس سے پہلے ایس بی آئی کے ساتھ پانچ معاون بینکوں کا انضمام ہوا تھا، لیکن کوئی معجزہ نہیں ہوا۔ گجرات بینک ملازم یونین کا کہنا ہے کہ اس سے بےروزگاری بڑھےگی۔
اب یہ دیکھا جانا باقی ہے کہ کیا مودی حکومت ان بڑے کارپوریٹ گھرانوں کے خلاف کارروائی کرنے میں کامیاب ہو پاتی ہے، جو آنے والے عام انتخابات میں نامعلوم انتخابی بانڈس کے سب سے بڑے خریدار ہو سکتے ہیں۔
جن گن من کی بات کے اس ایپی سوڈ میں سنیے بینکوں کے ذریعے سستی شرحوں اور آسان اصولوں پر بڑی کمپنیوں کو ’زراعت‘ لون دینے اور ایس سی ایس ٹی ایکٹ میں ترمیم کے خلاف ہوئے بھارت بند پر ونود دوا کا تبصرہ۔
یو آئی ڈی اے آئی نے اس کے ساتھ ہی خبردار بھی کیا ہے کہ اگر ایسے بچوں کو آدھار کارڈ نہ ہونے پر داخلہ دینے سے منع کیا جاتا ہے تو وہ غیر قانونی ہوگا اور ایسا کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
ریزرو بینک کے دعوے کے برعکس ایس بی آئی کے اکانومسٹ کا کہنا ہے کہ 2000 اور 500 کے نئے نوٹ آنے کے باوجود نقلی نوٹوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
چھوٹے فنانس بینک کا این پی اے بھی6-5 فیصد بڑھ گیا ہے۔ نوٹ بندی کے پہلے یہ ایک فیصد تھا۔ اس رپورٹ میں آہستہ سے نوٹ بندی اور قرض معافی کو وجہ بتایا گیا ہے۔ بڑے بینک ہوں یا چھوٹے بینک سب کے سب ڈوب رہے ہیں۔
یوم مزدور کے موقع پر جھارکھنڈ کے منریگا مزدور اور پینشن خوار نے بینک ادائیگی میں آ رہے مسائل کے بارے میں ریزرو بینک کے گورنر ارجت پٹیل کو اپنی مانگیں لکھکر بھیجی ہیں۔
میری نوکری نہیں ہوگی تو نہیں ہوگی۔ آپ بس براڈبینڈ کا خرچہ بھیج دینا۔ فیس بک پر پوسٹ لکھکر ہی حضور لوگوں کی حالت خراب کر دوںگا۔
دس لاکھ بینکروں کی فیملی میں چالیس لاکھ لوگ ہوںگے۔ اگر چالیس لاکھ کے سیمپل کی تکلیف اتنی خوفناک ہے تو آپ اس تصویر کو کسانوں اور بےروزگار نوجوانوں کے ساتھ ملاکر دیکھئے۔ کچھ کیجئے۔ کچھ بولئے۔ ڈریے مت۔
آرٹی آئی کے تحت ریزرو بینک نے بتایا کہ لوٹائے گئے نوٹوں کا حساب ،اور اس کے حقیقت کی پہچان کی جا رہی ہے۔ اس لئے اس بارےمیں مِلان اور حساب کی عمل کے پورے ہونے پر ہی جانکاری شیئر کی جا سکتی ہے۔ نئی دہلی : مرکز […]
اگلی چیز یہ ہونے والی ہے کہ آپ کو اپنے بال کٹانے کے لئے یا جلیبی خریدنے کے لئے بھی آدھار کارڈ کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ آدھار نمبرکے بغیر آپ کو سڑک پر گاڑی چلانے کی بھی اجازت نہیں ملے۔
ایسا لگتا ہے کہ مودی کو اخلاقیات اور وطن پرستی کی دہائی دےکر عوام کو تکلیف میں ڈالنے میں مہارت حاصل ہو گئی ہے۔ ہندوستانی متوسط طبقے میں بی جے پی حکومت کو لےکر کتنا عدم اعتماد ہے، اس کا اندازہ اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے […]
گزشتہ9 سال میں بینکوں نے 2 لاکھ 28ہزار روپیے کا لون معاف کر دیا ہے۔ کیا اس سے معیشت پر کوئی فرق پڑا ہے ؟ اس سے پہلے کہ ردی نیوز چینل اور ہندی کے اخبار آپ کو کانگریس بی جے پی کے کباڑ میں دھکیل دیں، اقتصادی […]
مرکزی حکومت کے 1.35 لاکھ کروڑ قیمت کے سرکاری بانڈوں کی شکل میں بینکوں کو اضافی سرمایہ دینے کے فیصلے کا مطلب ہے کہ ٹیکس دہندگان کے پیسوں سے بینکوں اور بقائےدار کارپوریٹ گروپوں کو بچایا جا رہا ہے۔ 1.35 لاکھ کروڑ قیمت کے سرکاری بانڈوں کی شکل […]
جن گن من کی بات کے اس ایپی سوڈ میں سنیےآئندہ گجرات انتخاب اور بینکوں میں نو سرمايہ کاری پر ونود دوا کا تبصرہ