اے جی آر معاملے میں سپریم کورٹ نے ووڈافون کے سوموار کو 2500 کروڑ روپے اور جمعہ تک 1000 کروڑ روپے ادا کرنے کے ساتھ ہی اس کے خلاف کوئی کارروائی نہ کئے جانےکی تجویز کو ٹھکرا دیا۔
بی ایس این ایل کے معاملے میں ابھی تک 77000 ملازمین وی آر ایس کے لئے درخواست دے چکے ہیں۔ ایم ٹی این ایل کو پچھلے دس میں سے نو سال نقصان ہوا ہے۔ بی ایس این ایل بھی 2010 سے گھاٹے میں ہے۔ دونوں کمپنیوں پر 40000 کروڑ روپے کا قرض ہے۔
شدیداقتصادی بحران سے جوجھ رہی ہے ایم ٹی این ایل، اپنے بقایے کے طور پر حکومت سے 800 کروڑ روپے مانگ
ملک کی سب سے بڑی سرکاری ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی بی ایس این ایل نے حکومت سے کہا کہ کمپنی نقدی کے بحران سے جوجھ رہی ہے اور کام کاج جاری رکھنے کے لئے اس کے پاس پیسے نہیں ہیں۔
انڈیا پوسٹ نے مالی سال19-2018 میں تنخواہ اور بھتہ پر 16620 کروڑ روپے خرچ کئے۔ اس میں پنشن کا خرچ 9782 کروڑ روپے بھی جوڑ دیں تو کل خرچ 26400 کروڑ روپے ہو جاتا ہے۔
آر ٹی آئی سے ملی اطلاع کے مطابق، مالی سال18-2017میں بی ایس این ایل نے جی ایس ایم موبائل فون سروس سے 7148.09 کروڑ روپے کا ریونیوکمایا۔ موجودہ مالی سال کے شروعاتی 10 مہینوں میں 4000.81 کروڑ روپے کا ریونیو کمایا ہے۔ یہ اعداد و شمار گزشتہ سالوں سے کافی کم ہیں۔
بی ایس این ایل ملازمین کی تنظیموں نے کمپنی کو بحران سے نکالنے کے لئے حکومت کو خط لکھا ہے۔ ملازمین کا کہنا ہے کہ ریلائنس جیو سے مل رہے سخت مقابلہ کی وجہ سے کمپنی کی اقتصادی صحت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔
ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق، حکومت نے بی ایس این ایل سے کہا ہے کہ وہ ان تمام باتوں پر توجہ دے، جس سے یا تو کمپنی دوبارہ کھڑی کی جا سکے یا سلسلے وار طریقے سے سرمایہ کاری کم کرتے ہوئے اس کو بند کرنے کے بارے میں سوچا جائے۔
وزیر اعظم مودی نے ٹوئٹ کیا ہے کہ 2014 سے پہلے ملک میں موبائل بنانے والی صرف 2 کمپنیاں تھیں، آج موبائل مینوفیکچرنگ کمپنیوں کی تعداد 120 ہو گئی ہے۔سوال ہے کہ کمپنیوں کی تعداد 2 سے 120 ہو جانے پر کتنے لوگوں کو روزگار ملا؟
یونین کا دعویٰ ہے کہ مرکزی حکومت نے بی ایس این ایل کو 4 جی سروس کے لیے اسپیکٹرم کا مختص اس لیے نہیں کیا تاکہ وہ جیو کے ساتھ مقابلہ نہ کر سکے۔
سماجی کارکن ریحانہ پر الزام ہے کہ انھوں نے فیس بک پر مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے والی پوسٹ ڈالی۔
پارلیامنٹ میں پیش ایک سروے کے مطابق، نقصان میں رہنے والی ٹاپ 10 کمپنیوں کے مجموعی نقصان میں بی ایس این ایل، ایئر انڈیا اور ایم ٹی این ایل کی حصےداری 55.66 فیصد رہی ہے۔