گریش کرناڈ کے ڈراموں میں بےحد خوبصورت توازن دیکھنے کو ملتا ہے، جہاں وہ ہندوستان کے اور مبینہ سنہری ماضی یا اسطوری دنیا کو خام موادکی طرح استعمال تو کرتے ہیں، لیکن اس کے پس پردہ عصری مسائل یا عصری سماج کے تضادات کو نمایاں کرتے ہیں۔
گریش کرناڈ ہمارے بیچ سے اتنے ہی سکون اور ایمانداری کے ساتھ وداع ہو گئے، جس طرح سے انہوں نے اپنی زندگی بسرکی۔
ہمیں گریش کرناڈ کو ایک عظیم ڈرامہ نگار، ایک زبردست اداکار کے ساتھ بے حد مہذب انسان کے طور پر یاد رکھنا چاہیے۔ ایک ایسا انسان جو ہندوستانی تہذیب کے بارے میں اتنا تو بھول ہی گیا تھا، جتنا آج بھارتیہ جنتا پارٹی کے حامیوں کو یاد ہے۔
مقامی لوگوں کا ماننا ہے کہ ماہواری کے دوران اگر عورتیں یا لڑکیاں ادھر سے گزریں تو مندر ناپاک ہو جائے گا۔والدین کو ڈر ہے کہ اگر انھوں نے ماہواری کے وقت لڑکیوں کو اسکول بھیجا تو ان کو کمیونٹی سے نکال دیا جائے گا۔
جن گن من کی بات کے اس ایپی سوڈ میں سینے خوف کی سیاست اور مرکز کا جنوبی ہندوستان کے تئیں سوتیلے سلوک پر ونود دوا کا تبصرہ۔
مجھے تو دوسرا کوئی نہیں دکھتا، جس کو شمال سے لےکر جنوبی ہندوستان تک کے آرٹ ، مثلاً موسیقی، ادب، رقص، عوامی ادب اور بصری آرٹ کے ساتھ ہی اپنی گہری کلاسیکی روایت کی بھی اتنی باریک سمجھ ہو۔ وہ کم سے کم 6ہندوستانی زبانوں میں لکھ، پڑھ اور بول سکتے ہیں۔