امریکہ کی‘2020 کنٹری رپورٹس آن ہیومن رائٹس پریکٹسیس’ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکومت نے میڈیا کی آواز کو دبانے کے لیےقومی سلامتی ، ہتک عزت ،سیڈیشن اور ہیٹ اسپیچ کے ساتھ ساتھ عدالت کی توہین جیسے قوانین کا سہارا لیا ہے۔
وزیر اعظم کے گود لیے گئے گاؤں سےمتعلق ایک رپورٹ پرصحافی سپریہ شرما کے خلاف وارانسی میں کیس درج کیا گیا ہے۔میڈیااداروں کا کہنا ہے کہ حکام کے ذریعےقوانین کے اس طرح سے غلط استعمال کا بڑھتاہوارجحان ہندوستان کی جمہوریت کے ایک اہم ستون کو تباہ کرنے کے مترادف ہے۔
نیوزپورٹل‘اسکرال ڈاٹ ان’کی ایگزیکٹو ایڈیٹر سپریہ شرما اور ایڈیٹران چیف کے خلاف ایس سی/ایس ٹی(انسداد مظالم)ایکٹ 1989 اور آئی پی سی کی مختلف دفعات کے تحت اتر پردیش پولیس نے مقدمہ درج کیا ہے۔
ملک میں ایک لمبی اور مشکل لڑائی کے بعد حاصل کئے گئے جمہوری حقوق خطرے میں ہیں کیونکہ حکمراں پارٹی کے ذریعے ان کا غلط استعمال کیا جا رہا ہے۔
اتر پردیش کی فیض آباد پولیس کے ذریعے درج ایک ایف آئی آر میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ‘دی وائر’ کے بانی مدیر سدھارتھ وردراجن نے اتر پردیش کےوزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے بارے میں ‘قابل اعتراض ’ تبصرہ کیا تھا۔
سی آر پی سی کی دفعہ41 (اے)کے تحت بھیجے گئے نوٹس میں فیض آباد پولیس کے ذریعے درج ایک ایف آئی آر کا حوالہ دیا گیا ہے جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ‘دی وائر’ کے بانی مدیرسدھارتھ وردراجن نے اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے بارے میں ‘قابل اعتراض ’ تبصرہ کیا تھا۔
اس ہفتے کی شروعات میں مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ سے کہا تھا کہ میڈیا کو رونا وائرس سے متعلق کوئی بھی جانکاری چھاپنے یا دکھانے سے پہلے سرکار سے اس کی تصدیق کرائے۔ اس کے بعد عدالت نے میڈیا کو ہدایت دی کہ وہ خبریں چلانے سے پہلے اس معاملے پر سرکاری بیان لے۔
دی وائر کے بانی مدیران نے بدھ کو ایک بیان جاری کر کے کہا کہ یوپی پولیس کے ذریعے درج ایف آئی آر جائز اظہار اور حقائق پر مبنی جانکاری پر حملہ کرنے کی کوشش ہے۔