ریاست کے وزیر داخلہ نتیانند رائے نے لوک سبھا میں بتایا کہ آسام میں 290 خواتین کو غیر ملکی قرار دیا گیا ہے۔ وہیں، 181 غیر ملکی قرار دیے گئے اور 44 سزا یافتہ غیر ملکی نے آسام میں نظربندی میں تین سال سے زیادہ وقت پورا کر لیا ہے۔
بی جے پی جنرل سکریٹری رام مادھو نے کہا کہ آج ایک مضبوط اور فیصلہ لینے والی قیادت کی شروعات ہو گئی ہے اور جمہوری ملک تبدیلی کے دور سے گزر رہے ہیں۔ مودی جی آج ایسے ہی ایک رہنما کے طور پر ابھرے ہیں۔
آسام میں فائنل این آر سی لسٹ 31 اگست کو جاری کی گئی تھی،جس میں 19 لاکھ سے زیادہ درخواست گزار وں کے نام شامل نہیں تھے۔ این آر سی میں جن لوگوں کے نام شامل نہیں ہیں ان کو فائنل این آر سی شائع ہونے کے 120 دنوں کے اندر فارین ٹریبونل میں اپیل دائر کرنی ہوگی۔
الیکشن کمیشن کے ایک افسر کے مطابق جن رجسٹرڈ ووٹر کا نام این آر سی کی حتمی فہرست میں نہیں آیا ہے، وہ ڈی-ووٹر نہیں کہلائیں گے۔ آسام میں ڈاؤٹ فُل یا مشتبہ ووٹر ان رائےدہندگان کا طبقہ ہے، جن کی شہریت شک کے گھیرے میں ہوتی ہے۔
بی جے پی رہنما رام مادھو نےکہا کہ جنا ح نے ہندوستان کا بٹوارا کیا اور ڈاکٹرمکھرجی نے آسام کو بچا کر پاکستان کا بٹوارا کیا۔
ریاست میں پچیس سالوں تک اقتدار میں رہی سکم ڈیموکریٹک فرنٹ نے گزشتہ اسمبلی انتخابات میں 15 سیٹیں جیتی تھیں۔
آسام میں این آر سی کا دوسرا اور آخری مسودہ 30 جولائی، 2018 کو شائع کیا گیا تھا جس میں 3.29 کروڑ لوگوں میں سے 2.89 کروڑ لوگوں کے نام شامل کئے گئے تھے۔ اس مسودہ میں 4070707 لوگوں کے نام نہیں تھے۔
اگر ہم نے بنگلہ دیشی مسلمانوں کو کو مغربی بنگال میں آنے کی اجازت دے دی تو کئی ضلعوں میں ہندو اقلیت میں ہوجائیں گے ۔
30 جولائی کو این آر سی کا آخری مسودہ جاری ہونے کے بعد الیکشن کمیشن نے کہا تھا کہ این آر سی سے نام ہٹنے کا مطلب ووٹر لسٹ سے نام ہٹنا نہیں ہے۔
جن گن من کی بات کے اس ایپی سوڈ میں سنیےجموں و کشمیر میں گورنر کی حکومت نافذ ہونے اور پانی کی کمی پر نیتی آیوگ کی رپورٹ پر ونود دوا کا تبصرہ۔
وزیر اعظم درجنوں بار کشمیر جا چکے ہیں۔ وہ جب بھی گئے اسکیموں اور وکاس پر بات کرتے رہے جیسے کشمیر کا مسئلہ سڑک اور فلائی اوور کا ہے۔ کشمیر مسئلے کو انہوں نے سولر پاور پلانٹ اور ہائیڈرو پلانٹ کی سنگ بنیاد تک محدود کر دیا۔ ان کی کشمیر پالیسی کیا ہے، کوئی نہیں جانتا۔
بی جے پی کے نیشنل جنرل سکریٹری رام مادھو کی ٹیم کا حصہ رہے شیوم شنکر سنگھ کہتے ہیں، ‘ میں 2013 سے بی جے پی کا حمایتی تھا کیونکہ نریندر مودی ملک کے لئے امید کی کرن کی طرح لگتے تھے اور مجھے ان کی وکاس کے نعرے پر اعتماد تھا۔ اب وہ نعرہ اور امید دونوں جا چکے ہیں۔ ‘