موسمیاتی تبدیلی سےمتعلق بین حکومتی کمیٹی کی جانب سے جاری رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ اگر اخراج میں تخفیف نہ کی گئی تو ہندوستان کوانسانی بقا کےنظریے سے ناقابل برداشت گرمی سے لے کراشیائے خوردونوش کی قلت اور سمندر کی آبی سطح میں اضافے سےشدید معاشی نقصان تک کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
کو رونا بحران سے بڑھتی بےروزگاری میں منریگا ہی واحد سہارا رہ گیا ہے۔ لوگوں کو روزگار دینے کی صحیح پالیسی نہیں ہونے کی وجہ سے مودی سرکار کو اپنی مدت کار میں منریگا کا بجٹ لگ بھگ دوگنا کرنا پڑا ہے اور حال ہی میں اعلان کیےگئے اضافی 40000 کروڑ روپے کو جوڑ دیں تو یہ تقریباً تین گنا ہو جائےگا۔
منریگا کے تحت کام مانگنے والوں کی بڑھتی تعداد یہ دکھاتی ہے کہ گرام پنچایت زیادہ سے زیادہ بے روزگاروں کو کام دے رہے ہیں۔
دی وائر کی خصوصی رپورٹ: آر ٹی آئی کے تحت حاصل کئے گئے دستاویز بتاتےہیں کہ مہاراشٹر، راجستھان، اتر پردیش سمیت کئی دیگر ریاستوں نے مرکز کے ذریعےطےشدہ ایم ایس پی پر اتفاق نہیں کیا تھا۔ ریاستوں نے اپنے یہاں کی پیداواری لاگت کے حساب سے امدادی قیمت طے کرنے کی سفارش کی تھی، لیکن مرکز نے تمام تجاویز کوخارج کر دیا۔
مرکزی حکومت نے این اے ایف ای ڈی کے ذریعےکشمیر گھاٹی سے صرف 7940 میٹرک ٹن سیب خریدے ہیں۔ کسان تنظیموں اور سیب کسانوں میں اس کو لے کر کافی ناراضگی ہے۔
اگست 2017 میں نیتی آیوگ سے استعفیٰ دینے والے اروند پن گڑھیا نے کہا کہ آپ آر سی ای پی سے باہر نہیں رہ سکتے ہیں کیونکہ اس کا مطلب ہوگا کہ ہم جو بھی ان 15 ممالک کے بازاروں میں برآمد کریںگے ان پر بھاری فیس لگےگی۔ وہیں، وہ بنا کسی روک-ٹوککے اپنا سامان برآمد کریںگے۔ اس سے ہمارے برآمد کنندگان کو بہت نقصان ہوگا۔
ہندوستان اپنی مصنوعات کے لئے بازار تک رسائی کے معاملے کو زور و شور سےاٹھا رہا تھا ، جس کا حل نہیں نکالا جا سکا۔ آر سی ای پی میں دس آسیان ممالک اوران کے چھ آزاد کاروبای شراکت دار چین، ہندوستان، جاپان، جنوبی کوریا، آسٹریلیا اورنیوزی لینڈ شامل ہیں۔
آر سی ای پی سمجھوتہ 10 جنوب مشرقی ایشیائی ممالک اور چین، ساؤتھ کوریا، جاپان، ہندوستان، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے بیچ کاروباری معاہدہ ہے۔
انٹرویو: تقریباً 250 کسان یونین کے سب سے بڑے مورچے آل انڈیا کسان سنگھرش کوآرڈینشن کمیٹی(اے آئی کے سی سی)نے ریجنل کمپریہنسواکانومک پارٹنر شب(آر سی ای پی)کاروباری معاہدے کے خلاف 4 نومبر کو پورے ملک میں مارچ نکالنے کا اعلان کیا ہے۔ تنظیم کے کنوینر وی ایم سنگھ سے بات چیت۔
کسی بھی ملک کے لئے اس سے بڑی بدقسمتی اور کیا ہوگی جہاں کروڑوں مزدوروں کی بربادی قومی شعور اور سیاسی بحث کا حصہ ہی نہیں ہے۔
یہ صورت حال اس وقت ہے جب ہندوستان کم از کم مزدوری کا قانون بنانے والا پہلا ترقی یافتہ ملک 1948 میں ہی بن گیا تھا۔قابل ذکر ہے کہ ہندوستان سماجی تحفظ پر چین،سری لنکا، تھائی لینڈیہاں تک کہ نیپال سے بھی کم خرچ کرتا ہے۔
حکومت نے مالی سال 2019سے20 کے لئے صوبہ وار منریگا مزدوری کا اعلان کیا ہے۔ اس کے تحت چھ ریاستوں اور یونین ٹیریٹری کے مزدوروں کی یومیہ مزدوری میں ایک روپے کا بھی اضافہ نہیں ہوا ہے۔
رواں مالی سال (25 مارچ تک) میں منریگا کے تحت 255 کروڑ افراد کے لیے کام کا موقع فراہم کیا گیا جو کہ11-2010 کے بعد سے اس اسکیم کے تحت افراد کےکام کے دن کی سب سے زیادہ تعداد ہے۔
دیہی علاقوں میں نہ صرف زرعی آمدنی گھٹی ہے بلکہ اس سے جڑے کام کرنے والوں کی مزدوری بھی گھٹی ہے۔ وزیر اعظم مودی زرعی آمدنی اور مزدوری گھٹنے کو جوشیلے نعروں سے ڈھکنے کی کوشش میں ہیں۔
یو پی اے حکومت کے مقابلے گزشتہ 5 سالوں میں دیہی علاقوں میں مزدوری کی شرح میں اضافہ بہت کم رہا ہے اور یہ صرف زراعتی شعبہ تک ہی محدود نہیں ہے۔
سی ایس او کے ذریعے جاری یہ اعداد و شمار بیس ایئر 2012-2011 پر مبنی ہیں۔
خاص رپورٹ : وزارت زراعت نے سینئر بی جے پی رہنما مرلی منوہر جوشی کی صدارت والی پارلیامانی کمیٹی کو بتایا کہ اگر وقت رہتے مؤثر قدم نہیں اٹھائے گئے تو دھان، گیہوں، مکئی، جوار، سرسوں جیسی فصلوں پر آب وہوا کی تبدیلی کا کافی برا اثر پڑ سکتا ہے۔ کمیٹی نے اس مسئلہ کو حل کرنے کے لئے حکومت کی کوششوں کو ناکافی بتایا ہے۔
اس سال جنوری میں مگہی پان کی زراعت کرنے والے کسانوں کی فصل سردی کی وجہ سے برباد ہو گئی۔ حکومت کی طرف سے معاوضہ کی یقین دہانی کے بعد بھی ان کو کوئی مدد نہیں مل سکی ہے۔
گجرات کی بی جے پی حکومت نے 15 فروری سے ریاست کے چار ضلعوں سریندرنگر، بوتاڈ، بھاؤنگر اور احمد آباد میں نرمدا کے پانی پر روک لگائی۔ اس سے پہلے 15 مارچ کی تاریخ طے کی گئی تھی۔
ویڈیو: اس سال کے بجٹ میں زراعت اورکسانوں کو لے کر کیے گئے اعلان اور وعدوں پر شعبہ زراعت کے ماہر دیویندر شرما کے ساتھ دی وائر کے بانی مدیر ایم کے وینو کی بات چیت