ہمیں خیال آیا ‘اقبال’ عربی کا لفظ ہے۔ ہندوستان میں رہتے ہوئے عربی نام رکھنا کہاں کی حب الوطنی ہے۔ ہم نے اپنا نام ‘کنگال چند’ رکھ لیا۔ یہ نام ویسے بھی ہماری مالی حالت کی غمازی کرتا تھا۔ نہ صرف ہماری بلکہ ملک کی حالت کی بھی!
بظاہر یہ پارٹیاں مختلف تھیں۔ ان کے الیکشن نشان مختلف تھے، ان کے نعرے مختلف تھے، اصول مختلف تھے، لیکن ان سب کا نصب العین ایک تھا۔ یعنی قلیل سے قلیل مدت میں ہندوستان کو تباہ و برباد کیا جائے۔
اس کتاب میں ان شعرا، ادبا اور صحافیوں کے کارناموں کو موضوع ِبحث بنایا گیا ہے جن کی تحریریں قارئین کو براہ راست متاثر کرتی تھیں اور ان کے فن پر ابہام کے پردے حائل نہیں تھے۔
ایک مسجد میں امامت کرنے والے باپ کے بیٹے قادر خان نے چٹائی پر بیٹھکر تعلیم حاصل کی تھی اور بعد میں جھگی میں پرورش پانے والا یہی بچہ منٹو سے بھی متاثر ہوا تھا۔اس بات کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا، منٹو نے مجھے سکھایا کہ آئیڈیاز بڑے ہونے چاہیے لفظ نہیں۔
دنیا میں اگرکوئی ایسی شے ہے جسے آپ با محاورہ اردو میں بیک وقت کھا اور پی سکتے ہیں تو یہی ستو اور فالودہ ہے جو ٹھوس غذا اور ٹھنڈے شربت کے درمیان نا قابلِ بیان سمجھوتہ ہے۔
مشتاق احمد یوسفی کا کمالِ فن یہ ہے کہ وہ اپنے کرداروں کے ساتھ ہنستے ہیں، ان پر نہیں۔
مشتاق احمد یوسفی گزشتہ کئی ماہ سے بیمار تھے اور کلفٹن کے نجی اسپتال میں زیر علاج تھے ۔