ہندوستان کی نصف ورکنگ آبادی مقروض: رپورٹ
ٹرانس یونین سبل کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جنوری2021 تک ہندوستان کی کل ورکنگ آبادی40.07 کروڑ تھی، جبکہ خوردہ کریڈٹ مارکیٹ میں 20 کروڑ لوگوں نے کسی نہ کسی طور پر قرض لیا ہے۔
ٹرانس یونین سبل کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جنوری2021 تک ہندوستان کی کل ورکنگ آبادی40.07 کروڑ تھی، جبکہ خوردہ کریڈٹ مارکیٹ میں 20 کروڑ لوگوں نے کسی نہ کسی طور پر قرض لیا ہے۔
آرٹی آئی کے تحت سامنے آئی جانکاری کے مطابق تقریباً2.51 کروڑ کسانوں کو کسان یوجنا کی دوسری قسط بھی نہیں ملی ہے۔
پی ایم کسان یوجنا کے تحت کسانوں کو ایک سال میں 2000 روپے کی تین قسطوں کے ذریعے کل 6000 روپے دینے تھے۔ حالانکہ آر ٹی آئی کے تحت حاصل کی گئی جانکاری سے پتہ چلتا ہے کہ تقریباً25 فیصد کسانوں کو ہی اس کا پورا فائدہ مل پایاہے۔
کسان کی تعداد کاپتہ نہیں ہونے اور اس کی صحیح تعریف نہیں طے کئے جانے کی وجہ سے مودی حکومت کی پی ایم-کسان جیسی اسکیموں پر کافی برا اثر پڑ رہاہے اور لوگوں کو اس کا فائدہ نہیں مل پا رہا ہے۔
راجیہ سبھا میں وزیر زراعت پرشوتم روپالا نے کہا کہ سرکار کی جانب سے کسانوں کی معاشی حالت کو ٹھیک کرنے کے لیے کئی پروگرام عمل میں لائے جا رہے ہیں لیکن خودکشی کرنے والے کسانوں کو معاوضہ دینے کا اہتمام موجودہ وقت میں چلائی جا رہی کسی پالیسی میں نہیں ہے۔
مالی سال 2019-20 کے لیے پی ایم -کسان کے تحت 75000کروڑ روپے مختص کیا گیا ہے۔کم خرچ کی وجہ سے اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ مختص کی گئی رقم کا بڑا حصہ مرکزی حکومت خرچ نہیں کر پائے گی۔
وزارت زراعت نے شروع میں اندازہ لگایاتھا کہ پی ایم کسان یوجنا کے تحت کل 14.5 کروڑ کسان فیملی کو فائدہ مل سکتا ہے۔حالانکہ صحیح اعداد و شمار نہیں ہونے کی وجہ سے یہ تعداد گھٹکر 10 کروڑ تک آنے کا امکان ہے۔
آر ٹی آئی کے تحت اسٹیٹ بینک آف انڈیا، بینک آف مہاراشٹر، یوکو بینک، سنڈکیٹ بینک، کینرا بینک جیسے نیشنلائزڈ بینکوں نے قبول کیا ہے کہ کسانوں کے اکاؤنٹ میں ڈالے گئے کروڑوں روپے واپس لے لئے گئے ہیں۔
یہ معاملہ ہریدوار کے لکسر کا ہے۔ 65 سالہ کسان ایشور چند شرما نے سوسائڈ نوٹ میں بینک سے 5 لاکھ کا لون دلانے والے ثالثی پر پیسے کے لیے ان کو بلیک میل کرنے کا الزام لگایا ہے۔
85سالہ اکانومسٹ اور نوبل ایوارڈ یافتہ امرتیہ سین نے کہا کہ ملک میں آئینی اداروں پر حملہ ہورہے ہیں۔اظہار رائے کی آزادی پر پابندی عائد کی جارہی ہے ،یہاں تک کہ صحافیوں کو پریشان کیا جارہا ہے۔
حکومت سرکاری بینکوں میں ایک لاکھ کروڑ روپے کیوں ڈال رہی ہے؟ کسان کا لون معاف کرنے پر کہا جاتا ہے کہ پھر کوئی لون نہیں چکائےگا۔ یہی بات صنعت کاروں کے لئے کیوں نہیں کہی جاتی؟
مودی حکومت کے 4 سالوں میں21سرکاری بینکو ں نے 3 لاکھ 16 ہزار کروڑ کے لون معاف کئے ہیں۔یہ ہندوستان کی صحت، تعلیم اور سماجی تحفظ کے کل بجٹ کا دو گنا ہے۔ سخت اور ایماندار ہونے کا دعویٰ کرنے والی مودی حکومت میں تو لون وصولی زیادہ ہونی چاہیے تھی، مگر ہوا الٹا۔ ایک طرف این پی اے بڑھتا گیا اور دوسری طرف لون وصولی گھٹتی گئی۔
معاشی بحران سے جوجھ رہی سرکاری ایئرلائنس ایئر انڈیا پر یہ بقایہ وی وی آئی پی چارٹر اڑانوں کا ہے ،جس میں سب سے زیادہ 543.18کروڑ روپے پی ایم او اور کیبینٹ سکریٹریٹ کا ہے۔
اسپیشل رپورٹ :آر ٹی آئی کے ذریعے یہ سامنے آیا ہے کہ سال 2016 میں 615 کھاتوں کو اوسطاً 95 کروڑ سے زیادہ کا زراعتی لون دیا گیا ہے۔ ماہرین زراعت کا کہنا ہے کہ سستی شرح اور آسان اصولوں کے تحت کسانوں کے نام پر بڑی بڑی کمپنیوں کو بھاری بھرکم لون دیا جا رہا ہے۔
پٹیل طبقے کے لیے ریزرویشن اور زراعتی قرض کی معافی کی مانگ کر رہے ہاردک پٹیل گزشتہ 25اگست سے غیر متعینہ بھوک ہڑتال پر ہیں۔
مہاراشٹر کے وزیراعلیٰ دیویندر فڈنویس کے حلقہ ودربھ میں سب سے زیادہ کسانوں نے خودکشی کی ہے۔ پچھلے پانچ مہینے میں ودربھ میں 504 کسانوں نے خودکشی کی۔
لوک سبھا میں وزیر زراعت رادھاموہن سنگھ نے بتایا کہ سال 2014 سے 2016 کے دوران قرض، دیوالیہ پن اور دوسری وجہوں سے تقریباً 36 ہزار کسانوں اور زراعتی مزدوروں نے خودکشی کی۔