سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو یہ ہدایت اس وقت دی جب الیکشن کمیشن نے کہا کہ امیدواروں سے ان کے مجرمانہ بیک گراؤنڈ کے بارے میں میڈیا میں اعلان کرنے کے لیے کہنے کے بجاے سیاسی پارٹیوں سے کہا جانا چاہیے کہ وہ مجرمانہ بیک گراؤنڈ والے امیدواروں کو ٹکٹ ہی نہ دیں۔
نریندر مودی نے وزیر اعظم بننے سے پہلےبغیرکسی جانبداری کے ایک سال کے اندر جس پارلیامنٹ کو جرم سے آزاد کرنے کا وعدہ کیا تھا وہ پانچ سال بعد بھی پورا نہیں ہوا۔ اس دوران ان کی پارٹی کے کئی رکن پارلیامان اور وزراء پر سنگین الزام لگے مگر مجرمانہ مقدمہ چلانے کی بات تو دور، انہوں نے عام اخلاقیات کی بنیاد پر کسی کا استعفیٰ تک نہیں لیا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے،’جن521موجودہ ایم پی کے حلف نامہ کا تجزیہ کیا گیا،ان میں 430 (83 فیصد)کروڑ پتی ہیں۔ان میں بی جے پی سے 227،کانگریس سے 37 اور اے آئی اے ڈی ایم کے سے 29 ایم پی ہیں۔‘
گزشتہ سال اگست میں کیرل میں آئے سیلاب کے دوران ایڈوکی اور تریشور ضلع سب سے زیادہ متاثر ہوئے تھے۔گزشتہ 2 مہینے میں ایڈوکی ضلع میں 8 جبکہ تریشور ضلع میں 1 کسان نے خودکشی کر لی۔
غور طلب ہے کہ جیل بھیجے گئے کسان چھوٹے اور حاشیے کے وہ کسان ہیں جو کہ پنجاب حکومت کی قرض معافی کی اسکیم کے تحت آتے ہیں۔
مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ دیویندر فڈنویس پر الزام ہے کہ انہوں نے اپنے انتخابی حلف نامے میں مجرمانہ معاملوں کے بارے میں جانکاری نہیں دی ہے۔ اس کی وجہ سے ان کے انتخاب کو مسترد کرنے کو لے کر سپریم کورٹ میں عرضی دائر کی گئی ہے۔
عدالت نے بہار اور کیرل کو ضرورت کے حساب سے اپنے اضلاع میں ایم پی اور ایم ایل اے کے خلاف زیر التوا معاملوں کی شنوائی کے لیے اسپیشل کورٹ بنانے کی آزادی دی ہے۔
ہندوستان میں زیادہ تر لوگ جب ووٹ دینے جاتے ہیں، تو صرف امیدوار کی ذات اور مذہب دیکھتے ہیں نہ کہ اس کا مجرمانہ پس منظر۔
اے ڈی آر اور نیشنل الیکشن واچ کی رپورٹ مانیں تو جس پارلیامنٹ کو ملک کا قانون بنانے کا حق ہے، اسی کے اندر لوک سبھا میں 185 اور راجیہ سبھا میں 40 رکن پارلیامان داغدار ہیں۔ تو یہ سوال ہو سکتا ہے کہ آخر کیسے وہ رہنما ملک میں بد عنوانی یا سیاست میں جرم کو لےکر غوروفکربھی کر سکتے ہیں جو خود داغدار ہیں۔
پورے ملک میں 1765 رکن پارلیمان اور ایم ایل اے سے جڑے 3045 مجرمانہ معاملے زیر التوا : مرکز نے سپریم کورٹ کو بتایا، یوپی سب سے آگے