انتظار حسین کی پانچویں برسی پر خصوصی تحریر: پھر آئے گی، جی یہی نام ہے اُس افسانے کا اور یہ نام منٹو کا رکھا ہوا ہے۔انتظار حسین کے مطابق منٹو نے افسانے کا مسودہ نکال کر کہا یہ تم نے کیا لکھا ہے۔یہ “وہ” کون ہے۔ “وہ” اس کہانی کا پہلا نام تھا۔ انہوں نے کچھ اور اعتراض بھی کیے اور نہ نظر آنے والی لڑکی کا کردار ایک بار پھر لکھنے کو کہا۔ وہ تبدیل شدہ افسانہ لکھ کر لے گئے تو منٹو نے کہا “یہ عنوان بھی ٹھیک نہیں۔ “وہ” کیا ہوتا ہے؟ “بکواس”۔
فلم میں منٹو کی کہانیوں کے کردار بھی پیش ہوۓ ہیں-یہ بھی اپنا اثر چھوڑنے میں ناکام ہیں- انہیں دیکھتے ہوۓ کئی بار ایسا لگا کہ ہم فلم کی بجائے اسٹیج پلے دیکھ رہے ہیں-
مجھے یقین ہے کہ 21 ستمبر کو “منٹو”کے پریمیئر پر لاہور کے قبرستان سے بھاگ کر ممبئی پُہنچ جائیں گے اور پھر نندتا داس اُن کو پوری دنیا میں لئے پھر ے گی!
بہار کے کھگڑیا ضلع سے ریٹائر جج کی اکلوتی بیٹی سپریم کورٹ کے ایک وکیل سے محبت کرتی ہے۔
اردو والا چشمہ کے اس ایپی سوڈ میں سنیے پیار کی طلبگار مدھو بالا کی داستان زندگی اور عشق و محبت کی کہانی نوپور شرما کی زبانی
جن لوگوں کے دلوں میں بنی نوع انسان کے لیے رواداری اور پریم پیار نہیں ہوتا اور جس آدمی کے دل میں نفرت ہوتی ہے ایسا آدمی مذہب سے بہت دور ہوتا ہے اور مذہب کی حقیقت سے بہت بے خبر ہے۔
”جاﺅ….چلے جاﺅ….ہمارا ہندو مذہب بہت برا ہے….تم مسلمان بہت اچھے ہو۔”شاردا کے لہجے میں نفرت تھی۔ وہ دوسرے کمرے میں چلی گئی اور دروازہ بند کردیا۔ مختار اپنا اسلام سینے میں دبائے وہاں سے چلا گیا۔ مختار نے شاردا کو پہلی مرتبہ جھرنوں میں سے دیکھا۔ وہ اوپر […]