رافیل سودے کو لےکر فرانس کے ایک جج کوسونپی گئی جانچ کو لےکراپوزیشن نے مرکز کی مودی حکومت کو نشانے پر لیا ہے۔ فرانسیسی ویب سائٹ میڈیا پارٹ نے گزشتہ دو مہینوں میں اس سودے سے متعلق ممکنہ جرائم کو لےکر کئی خبریں شائع کی تھیں، جس کے بعد جانچ کےحکم دیے گئے ہیں۔
پیرس کی ویب سائٹ میڈیا پارٹ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ داسو ایوی ایشن نے انل امبانی گروپ کے ساتھ پہلا ایم او یو 26 مارچ 2015 کو کیا تھا۔اس کے دو ہفتے بعد ہی وزیر اعظم نریندر مودی نے 126 رافیل طیاروں کےسودے کومنسوخ کرتے ہوئے 36 وطیاروں کی خریداری کے فیصلے کاعوامی اعلان کیا تھا۔
مودی حکومت کے ذریعے کئے گئے معاہدے کے تحت گارنٹی سے متعلق اہتماموں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے سی اے جی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ معاہدہ ٹوٹنے کی صورت میں ہندوستان کو پہلے پنچاٹ یا ثالثی کے ذریعے سیدھے طور پر ہوائی طیارے کے فرانسیسی فراہم کنندگان کے ساتھ معاملے کو سلجھانا پڑےگا۔
کیا واقعی بہتر شرطوں پر ڈیل ہوئی؟ سی اے جی کی رپورٹ بتاتی ہے کہ یہ ڈیل صرف اور صرف داسو کی شرطوں پر ہوئی۔ میک ان انڈیا کی شرط کا کیا ہوا، کچھ نظر نہیں آیا۔
جس وقت رافیل سودے پر بات چیت جاری تھی اسی وقت ریلائنس کر رہی تھی اس وقت کے فرانسیسی صدر کے پارٹنر کی مدد۔
پارٹی کے سینئر لیڈر اور ترجمان ایس جے پال ریڈی نے دعویٰ کیا کہ ؛یہ وزیراعظم نریندر مودی اور انل امبانی کے بیچ کا سیدھا سودا ہے۔ میں یہ کیوں کہہ رہا ہوں؟اس کی کچھ ٹھوس بنیاد ہے۔
کانگریس کو لگتا ہے کہ اس نے بی جے پی کی کمزور نبض پکڑ لی ہے اور وہ اس کو 2019 کے عام انتخابات تک ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتی ہے۔
وزیر دفاع نرملا سیتارمن بول چکی تھیں کہ وہ کچھ بھی نہیں چھپائیںگی، ملک کو سب بتائیںگی۔ لیکن کچھ دنوں کے بعد مکر گئیں اور کہہ دیا کہ فرانس اور ہندوستان کے درمیان خفیہ قرار ہے اور وہ معاہدے کی معلومات عام نہیں کر سکتی ہیں۔
وازارت دفاع کے ذریعے وردی سمیت 6000 کروڑ روپے کے فوجی مصنوعات کی خرید رد کرنے کے فیصلے سے ڈیفنس پروڈکشن یونٹس کے تقریباً6 لاکھ لوگوں کے بےروزگار ہونے اور تیار مصنوعات کی بربادی کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔
مرکز کے ذریعے اضافی بجٹ نہ دینے کی وجہ سے ایمرجنسی میں کام آنے والے گولہ بارود کے لئے فنڈ بچانے کی وجہ سے فوج سرکاری آرڈنینس فیکٹریوں پر خرچ کئے جانے والے بجٹ کو کم کر رہی ہے۔
جن گن من کی بات کے اس ایپی سوڈ میں سنیے پارلیامنٹ میں وزیر اعظم کا خطاب اور رافیل سودے پر ونود دوا کا تبصرہ