جمہوریت کو اپنےٹھینگے پر رکھے گھوم رہے لٹھیتوں کے اس دور میں46 سال پہلے کی ایمرجنسی کے 633 دنوں پر خوب ہائےتوبہ مچائیے،مگر پچھلے 2555 دنوں سے بھارت ماتا کی چھاتی پر چلائی جا رہی غیر اعلانیہ ایمرجنسی کی چکی کے پاٹوں کونظرانداز مت کریے۔
مودی کے انتخاب جیتنے کے بعد یا پھر اس سے کچھ پہلے ہی میڈیا نے اپنا غیر جانبدارانہ رویہ طاق پر رکھنا شروع کر دیا تھا۔ ایسا تب ہے جب حکومت اور وزیر اعظم نے میڈیا کو پوری طرح سے نظرانداز کیا ہے۔ میڈیا اہلکاروں کی جتنی زیادہ توہین کی گئی ہے، وہ اتنا ہی زیادہ اپنی وفاداری دکھانے کے لئے بےتاب نظر آ رہے ہیں۔
پریس کی آزادی کے لیے مولانا کی جدو جہد یہ احساس دلاتی ہے کہ صحافت ملک و قوم کی فلاح و بہبود کے لیے کسی بھی مشن سے کم نہیں ۔
بجٹ پیش ہونے سے کچھ دن پہلے پرائیویسی بنائے رکھنے کے لئے وزارت خزانہ میں صحافیوں کے داخلہ پر پابندی لگا دی جاتی ہے، لیکن بجٹ پیش ہونے کے بعد یہ پابندی ہٹا لی جاتی ہے۔ حالانکہ، اس بار ایسا نہیں کیا گیا۔
وزیراعظم نریندر مودی 44 سال پہلے یعنی اسی ماہ جون میں لگائی جانے والی ایمرجنسی کے لیے نہرو، اندرا گاندھی اور کانگریس کو نشانہ بناتے رہتے ہیں۔ اب مودی اور امت شاہ کی قیادت والی بی جےپی کو ایسے اندیشوں کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، جن کے مطابق ایمرجنسی جیسے حالات بنتے جا رہے ہیں۔ اس سے انہیں بنگال میں ممتا کو کنارے کرنے میں بھی مدد ملے گی۔
انوپم کھیر جیسے کچھ فنکار تختی لےکر میڈیا کو مدعا دیتے ہیں۔ ان کی تصویر اسکرین پر دکھاکر گھر بیٹھے لوگوں کے ذہن میں زہر بھرا جاتا ہے۔ اس عمل میں مسلمان کو دوئم درجے کا شہری بنایا جاتا ہے۔ لیکن اس سے پہلے جن کے ذہن میں یہ کچرا بھرا جاتا ہے ان کو دوئم درجے کا شہری بنایا جا چکا ہوتا ہے۔ اس لئے وسیع ہندو مفاد میں یہ ضروری ہے کہ تمام نیوز چینل دیکھنا بند کر دیں۔ کیونکہ چینلوں میں مذہب کے نام پر ہندوؤں سے جھوٹ بولا جا رہا ہے۔
میانمار کے رخائن میں فوجی کارروائی کے دوران روہنگیا مسلمانوں پر ہوئے ظلم و تشدد کی رپورٹنگ کرتے ہوئے 32 سالہ وا لون اور 28 سالہ کیاؤ سوئے او کو سرکاری پرائیویسی قانون توڑنے کے لئے گزشتہ سال ستمبر میں سات-سات سال کی جیل کی سزا سنائی گئی تھی۔
رپورٹرس ودآؤٹ بارڈرس کی طرف سے جاری ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں ہندوستان 180 ممالک میں سے 140ویں مقام پر ہے۔ 2018 میں اپنے کام کی وجہ سے ہندوستان میں کم سے کم 6 صحافیوں کی موت ہوئی تھی۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان میں 2019 کے عام انتخابات کے دوران حکمراں بی جے پی کے حامیوں کے ذریعے صحافیوں پر حملے بڑھے ہیں۔
صحافیوں کی اپنی ذاتی رائے ہو سکتی ہے، لیکن رپورٹنگ کرتے وقت ان کو اس سے دور رہنا ہوتا ہے-کیونکہ رپورٹنگ ان کی حب الوطنی کا آئینہ نہیں ہے، بلکہ اپنے قارئین کے ساتھ پیشہ ورانہ ڈیل کا حصہ ہے۔
کیا آپ پبلک کے طور پر ان چینلوں میں پبلک کو دیکھ پاتے ہیں؟ ان چینلوں نے آپ پبلک کو ہٹا دیا ہے۔ کچل دیا ہے۔ پبلک کے سوال نہیں ہیں۔ چینلوں کے سوال پبلک کے سوال بنائے جا رہے ہیں۔
2019 کا انتخاب عوام کے وجود کا انتخاب ہے۔اس کو اپنے وجود کے لئے لڑنا ہے۔جس طرح سے میڈیا نے ان پانچ سالوں میں عوام کو بے دخل کیا ہے، اس کی آواز کو کچلا ہے، اس کو دیکھکر کوئی بھی سمجھ جائےگا کہ 2019 کا انتخاب میڈیا سے عوام کی بے دخلی کا آخری دھکا ہوگا۔
میانمار کی حکومت ان جرائم سے انکار کرتی رہی ہے۔ لیکن صحافیوں کی گرفتاری کے بعد خود میانمار کی فوج نے مانا کہ اس نے گاؤں میں 10 روہنگیا ئی مردوں اور نوجوانوں کو مارا تھا۔
مدیران کا کام اقتدار کے لحاظ سےمواد کو بنائے رکھنے کا ہے اور حالات ایسے ہیں کہ اقتدار کے موافق تشہیر کی ایک ہوڑ مچی ہوئی ہے۔ آہستہ آہستہ حالات یہ بھی ہو چلے ہیں کہ اشتہار سے زیادہ تعریف نیوز رپورٹ میں دکھائی دے جاتی ہے۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اظہاررائے کی آزادی کو بچائے رکھنے والے ہر قانون کی اپنی جگہ پر ہونے کے باوجود اخباروں اور ٹیلی ویژن چینلوں نے بنا مزاحمت کے خود سپردگی کر دی ہے اور اوپر سے آرڈر لینا شروع کر دیا ہے۔
میڈیا بول کے اس ایپی سوڈ میں سنیے میڈیا کی آزادی پر سابق صحافی اور عآپ رہنما آشوتوش اور سینئر صحافی نیریندر ناگر سے ارملیش کی بات چیت۔
پتنجلی کے ترجمان نے اے بی پی نیوز چینل سے اشتہار ہٹانے کی بات قبول کرتے ہوئے سینئر صحافی پنیہ پرسون باجپئی اور ملند کھانڈیکر کے استعفیٰ میں ہاتھ ہونے سے انکار کیا۔
مانیٹرنگ کےطریقوں پر غور کرنے سے پہلے یہ سمجھ لیں کہ مانیٹرنگ کا چہرہ مودی حکومت کی ہی دین ہے ایسا نہیں ہے،لیکن مودی حکومت کے دور میں مانیٹرنگ کے معنی اور مانیٹرنگ کے ذریعہ میڈیا پر نکیل کسنے کا انداز ہی سب سے اہم ہو گیا ہے۔
اقتدار میں بیٹھے لوگوں کو لگتا ہوگا کہ وہ صحافیوں اور غیرمتفق آوازوں کو مارکر خاموش کرا دیںگے اور حقیقت کو چھپا لے جائیںگے، لیکن ایسا نہیں ہونے والا۔
ایمرجنسی کے 43 سال بعد ان سینسر فرمان کو پڑھنے پر اس ڈراؤنے ماحول کا اندازہ ہوتا ہے جس میں صحافیوں کو کام کرنا پڑا تھا، اخباروں پر کیسی پابندی لگی تھی اور کیسی کیسی خبریں روکی جاتی تھیں۔
میڈیا بول کے اس ایپی سوڈ میں سنیے متنازعہ علاقوں میں ماؤوادیوں کا قتل اور پریس فریڈم انڈیکس میں ہندوستان کے مقام میں آئی گراوٹ پر وکیل اور ہیومن رائٹس کارکن سدھا بھاردواج اور نیوز لانڈری کی کنسلٹنگ ایڈیٹر براج سوین کے ساتھ ارملیش کی بات چیت
عرب نامہ : ٹائمز کی صحافی سینٹرل قاہر ہ میں ایک انٹرویو کرنے جارہی تھی اسی وقت پولیس نے انہیں گرفتار کرلیا ۔ تقریباً 24 گھنٹے حراست میں رکھا گیا اور اس کے بعد لندن جانے والی پرواز میں انہیں بٹھادیا گیا۔ برطانوی رپورٹر کی ملک بدری کے واقعہ کو […]
جن گن من کی بات کے اس ایپی سوڈ میں سنیے موڈیز ریٹنگ اور پریس کی آزادی پرونود دوا کا تبصرہ