سال 2014 کے بعد سے یہ چوتھا موقع ہے جب پھر سے چیف انفارمیشن کمشنر کا عہدہ خالی ہوا ہے لیکن ابھی تک کسی کی تقرری نہیں ہوئی ہے۔ کمیشن میں کل پانچ عہدے خالی ہیں جس میں سے چار عہدے نومبر 2018 سے خالی پڑے ہوئے ہیں۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ ہم مرکزی اور ریاستی حکومتوں کو ہدایت دیتے ہیں کہ تقرری کرنا شروع کر دیں۔ ساتھ ہی افسروں کو ہدایت دی کہ وہ دو ہفتے کے اندر اس سرچ کمیٹی کے ممبروں کے نام سرکاری ویب سائٹ پر ڈالیں، جن کو سی آئی سی کے انفارمیشن کمشنر چننے کی ذمہ داری دی گئی ہے۔
اس سے پہلے مرکزی حکومت نے راجیہ سبھا میں بتایا تھا کہ سی آئی سی میں 13000 سے زیادہ ایسے معاملے ہیں، جو ایک سال سے زیادہ وقت سے زیر التوا ہیں۔
غیرسرکاری تنظیم سترک ناگرک سنگٹھن اور سینٹر فار ایکویٹی اسٹڈیز کے ذریعے تیار کی گئی ایک رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ کمیشن میں زیر التوا معاملوں کی اہم وجہ انفارمیشن کمشنر کی تقرری نہ ہونا ہے۔رپورٹ کے مطابق، ملک بھرکے26انفارمیشن کمیشن میں31مارچ2019تک کل 218347 معاملے زیر التوا تھے۔
سپریم کورٹ نے اپنے 15 فروری 2019 کے فیصلے میں کہا تھا کہ شفافیت برتتے ہوئے انفارمیشن کمشنر کی تقرری وقت پر کی جانی چاہیے۔ حالانکہ ابھی بھی مرکز اور ریاستوں میں انفارمیشن کمشنر کے کئی عہدے خالی ہیں۔
آر ٹی آئی کارکنوں نے نئے اصولوں کو انفارمیشن کمیشن کی آزادی اور ان کی خودمختاری پر حملہ قرار دیا ہے۔
مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے سینٹرل انفارمیشن کمیشن کی 14ویں سالانہ کانفرنس میں کہا کہ آر ٹی آئی درخواستوں کی بڑی تعداد میں کسی حکومت کی کامیابی نہیں چھپی ہوتی۔
آر ٹی آئی قانون نافذ ہونے کی 14ویں سالگرہ پر جاری کی گئی رپورٹ کے مطابق فروری 2019 میں سپریم کورٹ کی ہدایت کے بعد بھی انفارمیشن کمشنرکی وقت پر تقرری نہیں ہو رہی ہے۔ اس کی وجہ سے ملک بھرکے انفارمیشن کمیشن میں زیرالتوا معاملوں کی تعداد بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے اور لوگوں کو صحیح وقت پر اطلاع نہیں مل پا رہی ہے۔
سینئر وکیل پرشانت بھوشن نے کہا کہ مرکز اور ریاست کے انفارمیشن کمیشن میں انفارمیشن کمشنر کے عہدوں کا خالی رہنا جمہوریت کے لئے اچھا نہیں ہے۔ آر ٹی آئی ایکٹ پاس کرنے کااہم مقصد شفافیت متعین کرنا تھا۔
آر ٹی آئی کی دفعہ 8(1) (جے) کے تحت ذاتی اطلاعات سے جڑی ایسی جانکاریاں نہیں دینے کی چھوٹ ہے جن کا وسیع پیمانے پر مفاد عامہ سے کوئی تعلق نہیں ہے یا جس سے کسی شخص کی رازداری میں بلاضرورت دخل ہوتا ہو۔
صرف دھن ہی کالا نہیں ہے، بلکہ متعلق اسٹڈی اور اٹھائے گئے قدم کو لےکر جانکاری کو بھی گہرے اندھے کنویں یا بلیک ہول میں ڈال دیا گیا ہے۔