’یہ کہنا شاید صحیح نہیں کہ ہمیں اپنے اسلاف کے کارناموں کا علم نہیں ‘ لیکن کیا کیجیے کہ ہم اپنے کلچر ہیرو کو کہانیوں میں تلاش کرتے پھرتے ہیں۔منشی نولکشورکو میں کلچر ہیرو کے طور پر جانتا ہوں کہ انہوں نے کتابوں کی صورت آب حیات کے چشمے جاری کیے۔‘
انٹرنیٹ نے موبائل فون میں بھی گھس پیٹھ کر لی ہے، سو ہر کس و نا کس کے ہاتھ یہ جالِ جدید لگ گیا ہے۔ اب ہر ایرا غیرا نتھو خیرا غالب کے نام سے بے تُکی باتیں نیٹ پر ڈال دیتا ہے۔
اس کتاب میں سیڈیشن جیسے پیچیدہ موضوع پراس طرح اور عام فہم زبان میں بات کی گئی ہے کہ پرائمر بھی اس کو سمجھ سکتا ہے۔اس میں میں کچھ ایسے بھی اہم سیڈیشن معاملات پر گفتگو کی گئی ہے جس کا عام طور پر سیڈیشن سے متعلق مباحث میں ذکر نہیں ہوتا۔
پروفیسر ریاض الرحمن شیروانی یوں تو عربی زبان و ادب کے پروفیسر رہے ہیں لیکن ان کی اردو نثر مفرس اور معرب نہیں ہے بلکہ سادگی اور برجستگی کا خاص خیال رکھا ہے۔ آج کے خبر نویسوں اور کالم نویسوں کو اس کتاب کامطالعہ لازمی طور پر کرنا چاہیے۔
دہلی کی بھولی ہوئی کہانیاں ،آثار قدیمہ اور دہلی کی تہذیب و ثقافت پر مصنف اور مترجم رعناصفوی سے ان کی تازہ ترین کتابوں کے تناظر میں مہتاب عالم کی بات چیت
ویڈیو:سینئر صحافی اور قلمکار صبا نقوی سے ان کی تازہ ترین کتاب ‘Shades of Saffron: From Vajpayee To Modi’اور موجودہ حالات میں میڈیا رپورٹنگ کے موضوع پرمہتاب عالم کی بات چیت
ڈائری کی طرز پر لکھی گئی یہ کتاب کارگل کی جنگ کا اولین سچا، مفصل اور معتبر دستاویز ہے۔ اس میں ان واقعات کی حقیقی تصویر ملتی ہے کہ کیسے ہماری افواج نے بہادری سے لڑتے ہوئے انہیں مار بھگایا۔
ایمر جنسی کی روداد لکھنے والے صحافی جان دیال اور اجے بوس کے ساتھ مہتاب عالم کی بات چیت
پہلی اور دوسری کلاس کے بچوں کو جو ہوم ورک دیا جاتا ہے اس کی وجہ سے ان کے سونے کا دورانیہ متاثر ہوتا ہے۔جب تک بچے 5 سال کے نہیں ہوجاتے تب تک ان کو پنسل نہ پکڑایا جائے۔
مسلمان ‘ عقیدہ کو ٹھیس ‘ لگنے والی زبان سے دوری بناکر اب شہریت کے حقوق کی زبان بولنا سیکھ رہے ہیں، تو لازمی ہے کہ ان کو انصاف اور مساوت کے معیار کو ان مدعوں پر بھی نافذ کرنا ہوگا جن کو لمبے وقت سے قوم کا اندرونی معاملہ کہہکرخاموشی اختیار کر لی جاتی رہی ہے
اس ویڈیو میں دیکھیے وہ نایا ب کتابیں کون سی ہیں اور انہیں کیسے Digitizedکیا جارہا ہے۔
جانیے1994میں قائم شدہ پرانی دلی کی شاہ ولی اللہ لائبریری کس طرح بیش قیمتی کتابوں کا ادارہ ہونے کے ساتھ ساتھ گردو نواح کے لوگوں کے لیے ایک تعلیمی گہوارہ بھی ہے۔
اسلم محمود کی کتاب “اودھ سمفنی”کے مشمولات اور اس کی اہمیت پر رعنا صفوی کا تبصرہ