موسمیاتی تبدیلی سےمتعلق بین حکومتی کمیٹی کی جانب سے جاری رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ اگر اخراج میں تخفیف نہ کی گئی تو ہندوستان کوانسانی بقا کےنظریے سے ناقابل برداشت گرمی سے لے کراشیائے خوردونوش کی قلت اور سمندر کی آبی سطح میں اضافے سےشدید معاشی نقصان تک کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
2015 – 2016 سےتین سال تک 10.4 فیصد کی شرح سے ترقی کرنے پر ہی ہم زراعتی شعبے میں دوگنی آمدنی کے ہدف کو پا سکتے تھے۔ اس وقت یہ 2.9 فیصد ہے۔ مطلب صاف ہے ہدف تو چھوڑئیے، آثار بھی نظر نہیں آ رہے ہیں۔ اب بھی اگر اس کو حاصل کرنا ہوگا تو باقی کے چار سال میں 15 فیصد کی شرح نمو حاصل کرنی ہوگی جو کہ موجودہ آثار کے حساب سے ناممکن ہے۔
خاص رپورٹ : وزارت زراعت نے سینئر بی جے پی رہنما مرلی منوہر جوشی کی صدارت والی پارلیامانی کمیٹی کو بتایا کہ اگر وقت رہتے مؤثر قدم نہیں اٹھائے گئے تو دھان، گیہوں، مکئی، جوار، سرسوں جیسی فصلوں پر آب وہوا کی تبدیلی کا کافی برا اثر پڑ سکتا ہے۔ کمیٹی نے اس مسئلہ کو حل کرنے کے لئے حکومت کی کوششوں کو ناکافی بتایا ہے۔
بہار سے گراؤنڈ رپورٹ : لاکھوں دَلہن کسان اپنی فصل کولاگت سے کم قیمت پر بیچنے کو مجبور ہیں۔
ہندوستان کی سیاست جھوٹ سے گھر گئی ہے۔ جھوٹ کے حملے سے بچنا مشکل ہے، اس لئے سوال کرتے رہیے کہ 14 دنوں میں گنّا ادائیگی اور ایتھانول سے ڈیزل بنانے کے خواب کا سچ کیا ہے ورنہ صرف جھانسے میں ہی پھانسے جائیںگے۔
بہار کے مکامہ ٹال میں گزشتہ سال وزیر اعظم نریندر مودی کےعوامی اجلاس کے لئے انتظامیہ نے کسانوں سے زمین لی تھی، لیکن ساڑھے تین مہینے سے زیادہ وقت گزرنے کے بعد بھی ان کو بطور معاوضہ کچھ نہیں ملا۔