معاملہ کانپور شیلٹر ہوم کا ہے، جہاں 12 جون کو رینڈم سیمپلنگ کے دوران ایک لڑکی کو رونا پازیٹو پائی گئی تھی، جس کے بعد تمام171 لڑکیوں کا ٹیسٹ کرایا گیا۔ اب تک یہاں 57 لڑکیاں اور ایک اسٹاف کو رونا پازیٹوپائی گئی ہیں۔
الزام ہے کہ یہ خواتین غلطی کرنے پر شیلٹر ہوم میں رہ رہی 6 سے 15 سال کی بچیوں کو سخت سزا دیتی تھیں۔ سزا کے طور پر ان کو صبح صبح ٹھنڈے پانی سے نہلایا جاتا تھا اور پرائیویٹ پارٹس میں مرچی پاؤڈر ڈال دیا جاتا تھا۔
لڑکیوں نے الزام لگایا ہے کہ ڈسپلن کے نام پر شیلٹر ہوم والے ان کو زبردستی مرچ کھلاتے ہیں۔ خواتین اسٹاف بچیوں کے پرائیوٹ پارٹ میں مرچ ڈال دیتی ہیں۔ کمرہ صاف نہیں کرنے پر،اسٹاف کی بات نہیں ماننے پر اسکیل سے پیٹا جاتا ہے۔
بہار کے مظفرپور کے شیلٹر ہوم میں بچیوں کے ساتھ جنسی استحصال کے واقعات سے متعلق معاملے کی سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا کہ اگر موجودہ نظام کافی ہوتا، تو مظفرپور میں جو بھی ہوا، وہ نہیں ہوتا۔
یونین منسٹری آف وومین اینڈ چائلڈ ویلفیئر نے اس معاملے کی جانکاری لیتے ہوئے 15ستمبر تک رپورٹ مانگی ہے ۔
اتر پردیش کے دیوریا میں غیررجسٹرڈشیلٹر ہوم میں 24 لڑکیوں کے مبینہ جنسی استحصال کا واقعہ سامنے آنے کے بعد وزارت نے ایک بار پھر تمام اداروں سے رجسڑیشن کی اپیل کی ہے۔
سپریم کورٹ نے گزشتہ سال تمام ریاستوں کے چائلڈ شیلٹر ہوم کے سوشل آڈٹ کا حکم دیا تھا۔بہار اور اتر پردیش کے علاوہ ہماچل پردیش، منی پور، میگھالیہ، کیرل، مغربی بنگال، چھتیس گڑھ اور دہلی بھی سوشل آڈٹ کی مخالفت کر رہی ہے۔
ہردوئی ضلع مجسٹریٹ کی جانچ میں ایک این جی او کے ذریعے بےسہارا خواتین کے لئے چلائے جا رہے شیلٹر ہوم میں 21 میں سے 19 خواتین غائب پائی گئیں۔ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ گرانٹ پانے کے لئے ادارے نے رجسٹر میں خواتین کے فرضی نام دکھائے تھے۔