میں یقیناً یہ کہتا رہا ہوں کہ ہمارے فرض کے سامنے دو ہی راہیں ہیں؛ گورنمنٹ نا انصافی اور حق تلفی سے باز آ جائے، اگر باز نہیں آ سکتی تو مٹا دی جائے گی۔ میں نہیں جانتا کہ اس کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے ؟ یہ تو انسانی عقائد کی اتنی پرانی سچائی ہے کہ صرف پہاڑ اور سمندر ہی اس سے کم عمر کہے جا سکتے ہیں۔
’ہندوستان کا کوئی مسلمان ایسا نہ تھا جس نے مولانا کے ناولوں کا مطالعہ نہ کیا ہو،یہاں تک کہ بعض علماء جن کو ناول کے نام سے نفرت تھی ،مولانا کی تصنیف کا دیکھنا باعث حسنات جانتے تھے۔‘
سکھ مذہب کے بانی گرو نانک دیو پنجاب کےتلونڈی گاؤں میں1469 پیدا ہوئے ،اس گاؤں کواب ننکانہ صاحب کہا جاتا ہے۔آج ان کے 550ویں یوم پیدائش پر ان سے متعلق ایک دلچسپ واقعہ ملاحظہ کیجے۔
مولانا کا مائند سیٹ صرف ایک مسلم کا نہیں تھا ،ایک انسان کا تھا۔ہندوستان کا تھا،ایک ہندوستانی کا تھا۔
امیرؔ مینائی کو یہ سعادت حاصل ہے کہ ان کے بہت سے اشعار محاوروں اور ضرب الامثال کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔ روزمرہ کی عام بول چال میں لوگ کثرت سے ان کا استعمال کرتے ہیں۔
ریاست وملک کے 23 سے زائد شخصیات کے ناموں کو شامل کیا گیا ہے جن کی یومِ پیدائش سرکاری سطح پر منائی جائے گی۔ اس فہرست میں راجستھان کے مہاراناپرتاپ تک کے نام کو تو شامل کیا گیا ہے لیکن مولانا ابوالکلام آزاد اور سابق صدرجمہوریہ ڈاکٹر ذاکرحسین کے نام کو شامل نہیں کیا گیا ہے ۔