سابق چیف اکنامک ایڈوائزر اروند سبرامنیم نے کہا ہے کہ مجموعی گھریلو مصنوعات (جی ڈی پی) کے تازہ ترین اعداد و شمار آپس میں میل نہیں کھاتے ہیں۔ انہوں نے گرتی ہوئی براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری پر سوال اٹھایا کہ اگر ہندوستان سرمایہ کاری کے لیے اتنا ہی پرکشش ملک بن گیا ہے تو زیادہ سرمایہ کاری کیوں نہیں آ رہی؟
مرکز کی مودی حکومت کے سابق چیف اکانومک ایڈوائزر اروند سبرامنین نے کہا کہ ہندوستان کی معیشت اس وقت بحران میں ہے۔ اس کو مندی جھیلنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
نوٹ بندی کے دو سال بعد اہم بینکر ادئے کوٹک نے 2000 روپے کا نوٹ لانے پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ اگر آپ 500 اور 1000 روپے کے نوٹ بند کر رہے ہیں تو اس سے بڑا نوٹ لانے کی کیا ضرورت تھی؟
سابق چیف اکانومک ایڈوائزر سبرامنین کے زمانے میں ہوئی نوٹ بندی کی وجہ سے 500 اور 1000روپے کے نوٹ چلن سے باہر ہوگئے تھے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ جی ایس ٹی کے نفاذ کے وقت بھی وہ چیف اکانومک ایڈوائزر تھے۔
سینئر بی جے پی رہنما مرلی منوہر جوشی کی قیادت والی لوک سبھا کی Estimates Committee ہندوستان میں بیڈ لون کی مقدار اور دانستہ طورپر دیوالیہ ہونے کے معاملے کی جانچکر سکتی ہے۔
غور طلب ہے کہ مرکزی حکومت نے کئی کڑے فیصلے جس میں نوٹ بندی سے لے کر جی ایس ٹی تک نفاذ ہے وہ سب اروند کے وقت میں ہی لیے گئے۔
1999 میں این ڈی اے-1 نے 8 فیصدجی ڈی پی شرح نمو کے ساتھ اپنی پاری کی شروعات کی تھی، لیکن بعدکے تین مالی سالوں کے درمیان جی ڈی پی شرح نمو میں تیز گراوٹ دیکھی گئی۔ اس کی خاص وجہ زراعتی شرح نمو کا اوندھےمنھ گرکرصفر پر آنا تھا۔ یہی کہانی این ڈی اے-2 میں بھی دوہرائی جا رہی ہے۔