این آر سی میں شامل نہیں کئے گئے 40.70 لاکھ لوگوں میں سے اب تک 14.28 لاکھ لوگوں نے ہی اتھارٹی کے یہاں دعوے اور اعتراضات داخل کیے ہیں۔ جس کی چھان بین کی آخری تاریخ 15فروری، 2019 ہوگی۔
چیف جسٹس رنجن گگوئی کی صدارت والی بنچ نے پہلے سے قابل قبول 10دستاویزوں کے علاوہ 5 اور ایسے دستاویزوں کو قبول کرنے کے اجازت دی ہے جن کو این آر سی کوآرڈینٹر نےشہریت کی تصدیق میں سختی کے مد نظر قبول کرنے سے منع کر دیا تھا۔
حکومت ہند غیر قانونی روہنگیا پناہ گزینوں کے بارے میں ریاستوں سے جٹائے گئے بایوگرافک اعداد و شمار کو میانمار حکومت کے ساتھ شیئر کرےگی۔ اس کی بنیاد پر ان کی شہریت کی تصدیق کی جا سکےگی۔
سپریم کورٹ نے آسام میں غیر قانونی طور پر آئے 7 روہنگیاؤں کو ان کے ملک میانمار بھیجنے کے حکومت کے فیصلے میں مداخلت کرنے سے انکار کر دیا۔
عدالت نے این آر سی کے ڈرافٹ پر دعویٰ اور اعتراض کی آخری تاریخ (30 اگست ) کو ملتوی کر دیا ہے۔ کورٹ نے دعوٰی و اعتراضات کے متعلق مرکزی حکومت کی جانب سے جاری کئے گئے Standard Operating Procedure ( ایس او پی ) کے تضاد کو لیکر بھی سوال کیا ہے۔
آسام میں این آر سی کے مکمل مسودہ کی اشاعت کے بعد میگھالیہ نے ریاست میں آنے والے لوگوں کی کڑی جانچ شروع کر دی ہے۔
ایسا پہلی بار نہیں ہوا جب کسی بی جے پی ایم ایل کا اشتعال انگیز بیان سامنے آیا ہے۔راجا سنگھ سے پہلے ہی مغربی بنگال بی جے پی کے صدر دلیپ گھوش کہہ چکے ہیں کہ اگر ان کی سرکار آتی ہے تو آسام کی طرح ہی بنگال میں بھی این آر سی کو نافذ کریں گے۔