خصوصی رپورٹ : تین سو سال پرانا ‘جنم استھان مندر’1980 کی دہائی میں شروع ہوئی رام جنم بھومی تحریک سے پہلے رام کی پیدائش سے وابستہ تھا اور ایک مسلم زمیندارکی طرف سے عطیہ میں دی گئی زمین پر بنایا گیا تھا۔ یہ رام کے باہمی وجود والی اس ایودھیا کی علامت تھا، جس کا نام و نشان اب نظر نہیں آتا۔
اس کتاب نے ’مجرموں‘ کے چہروں کو، کچھ پختہ شہادتیں اور ثبوت پیش کر کے مزید عیاں کر دیا ہے ۔سیکولر چہرے جنہوں نے ایودھیا تنازعے کا ’استعمال‘ یا ’استحصال‘ اپنے سیاسی قد کو بڑھانے کے لیے کیا، اور مسلم قیادت کے وہ چہرے جو جان دینے اور لینے کی باتیں کرکے عام مسلمانوں کو بیچ راہ میں چھوڑ گئے، اور اس طرح چھوڑ گئے کہ ’ہندوتوادیوں‘ کو اپنے مذموم منصوبے پر عمل کرنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آئی ۔
ایسے مسئلوں کا پرامن حل اسی وقت نکل سکتا ہے جب ہم مسلمانوں کی رضامندی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں ۔
سبھاش چندر بوس اور پٹیل میں نظریاتی اختلافات بھی تھے۔بوس جہاں سماجوادی نظریات میں پختہ یقین رکھتے تھے، وہیں پٹیل کی ہمدردی نجی سرمایہ کاروں کے ساتھ تھی۔بوس ہندو مسلم ایکتا کے پٹیل سے زیادہ حامی تھے۔
شیعہ وقف بورڈ پہلے بھی رام مندر کے لیے مسلمانوں کے حصے کی زمین کو مندر کے لیے دینے کی بات کہہ چکا ہے۔
لیکن سمجھوتے کا یہ کام بھی صرف عدالت کی سربراہی میں ہو سکتا ہے یا آر ایس ایس سمیت اصل فرقاء سے یا خود حکومت سے بات چیت کرکے حاصل ہوسکتا ہے۔
ہم بھی بھارت کے اس ایپی سوڈ میں سنیے سپریم کورٹ میں زیر سماعت بابری مسجد اور رام مندر تنازعہ پرآل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ کے ممبر کمال فاروقی اورمؤ رخ ایس عرفان حبیب کے ساتھ عارفہ خانم شیروانی کی بات چیت
آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے رکن عاملہ اور اخوان المسلمین و داعش جیسی متنازع تنظیموں سے ہمدردی رکھنے نیز ان کی حمایت میں قصیدہ پڑھنے والے مولاناسید سلمان حسینی ندوی کا بورڈ کے خلاف اعلان بغاوت سے اب مطلع مزید صاف ہو تا جا رہاہے۔
گزشتہ سال سپریم کورٹ نے کئی سارے اہم فیصلے دیے،ان میں سے کچھ فیصلوں کو سنگ میل کہا جاسکتا ہے۔یہاں پڑھیے 2017میں سپریم کورٹ کے 25یادگار فیصلوں کا خلاصہ۔