اگر انتخابی جیت میں وزیر اعظم کے جھوٹ کا اتنا بڑا رول ہے تو ہر جھوٹ کو ہیرا اعلان کر دینا چاہئے۔ اس ہیرے کا ایک کنگن بنا لینا چاہئے۔ پھر اس کنگن کو نیشنل میمنٹو اعلان کر دینا چاہئے۔
اگر لوک سبھا اسپیکر یا پریسائڈنگ آفیسر کسی بہانے ایسے واجب عدم اعتماد تجویز پر عمل کرنے سے انکار کر دے تو پھر پارلیامانی جمہوریت پر ٹکے ہمارے نظام پر کون بھروسا کرےگا؟
اتر پردیش اور بہار میں لوک سبھا اور اسمبلی ضمنی انتخاب نتیجے پر سوشل میڈیا پر آئے کچھ رد عمل۔
بد عنوانی ہندوستانی سیاست کی روح ہے۔ ا س کے جسم پر راشٹرواد اور سیکولرزم اوڑھکر سب نوٹنکی کرتے ہیں۔
گجرات انتخاب میں ذات ،برادری اور اقتصادی عدم مساوات کی آنچ پر ایسی کھچڑی پکی، جس کا ذائقہ بی جے پی کو اب کڑوا لگ رہا ہے۔ 2002 میں گجرات فسادات کے بعد ہوئے اسمبلی انتخاب میں بی جے پی اور نریندر مودی نے بڑی جیت حاصل کی […]
ہندوستان کی سیکولرازم کو بچانے کی لڑائی ہندو بنام مسلم لڑائی ہے ہی نہیں۔ وہ ہندو بنام ہندو کی لڑائی ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے گجرات کے پھسلتے انتخاب کو’ وچاردھارا‘اور اپنے کرشمہ کے دم پر ہار کے منھ سے نکال لیا۔ یہی ان کی اور بی […]
اگر پرنب مکھرجی کو صدر کی جگہ وزیر اعظم بنایا جاتا تو ان کی سیاسی قابلیت 2014 میں نریندر مودی کے راستے میں رکاوٹ بنکر کھڑی ہوتی۔ کیا 2012 کی گرمیوں میں کانگریس صدر سونیا گاندھی نے منموہن سنگھ کی جگہ پرنب مکھرجی کو وزیر اعظم نہ بناکر […]
چند ہفتے قبل بی جے پی میں شامل ہوئے پاس کے سورت کے کنوینر نکھل سوانی نے بھی آج پارٹی پر پاٹی داروں کو ووٹ بینک سمجھنے کا الزام لگاتے ہوئے اس سے ناطہ توڑنے اعلان کردیا۔ انہوں نے کہا کہ پاٹی داروں کے لئے کام ہونے کی […]