ویڈیو: بھوپال گیس سانحہ کے بعد کے سالوں میں متاثرین کی تعداد میں اضافہ اور گیس کے سنگین مضر اثرات کو دیکھ کر سال 2010 میں اس وقت کی مرکزی حکومت نے اضافی معاوضے کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ حال ہی میں، سپریم کورٹ نے اس مطالبہ کو مسترد کر دیا۔بھوپال کے گیس متاثرین کی تنظیمیں بھی اس معاملے میں فریق تھیں، اس فیصلے کے حوالے سے ان کے نمائندوں سے بات چیت۔
بھوپال میموریل ہاسپٹل اینڈ ریسرچ سینٹر سے استعفیٰ دینے والے ڈاکٹرپرموشن نہیں ملنے سے ناراض ہیں۔ ہاسپٹل کے ڈائریکٹر نے کہا کہ ڈاکٹروں کی مانگ پرغور کیا جا رہا ہے۔
جبار بھائی کی تنظیم فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی بہترین مثال ہے، جس میں ہندو و مسلم کاندھے سے کاندھا ملا کر کام کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک سب سے قیمتی انسانی جان تھی جس کو بچانے کے لیے وہ زندگی بھر کوشاں رہے، یہاں تک کی اپنے جان کی پروا نہیں کی۔ ان کی مقبولت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ بھوپال میں مشہور تھا کہ جس گیس متاثر کا کوئی نہیں ہے اس کے جبار بھائی ہیں۔
عبدالجبار 1984 کی گیس ٹریجڈی کی متاثرہ خواتین کی تنظیم سے وابستہ تھے اور ان کو حق دلانے کے لیے جدوجہد کرتے رہے۔ ان کے بائیں پیر میں گینگرین تھا، جس کے علاج میں وہ معاشی بحران کی حالت میں پہنچ گئے تھے۔
آج تین دہائیوں سے زیادہ گزرنے کے بعد بھی یونین کاربایئڈ فیکٹری کا دیا ہوا زخم تازہ ہے، خاص طور پر ان ہزاروں متاثرین کے لیے جن کی زندگی اس حادثہ نے مکمل طور پر بدل دی۔
الیکشن کے ہنگاموں کے دوران مدھیہ پردیش میں کچھ اہم معاملات نظر انداز ہو گئے ہیں۔بی جے پی کی موجودہ سرکار نے ملک کے اس وسطی صوبے کے کچھ اہم مسائل کو پس پشت ڈال دیا ہے۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ ہندوستان میں صاف صفائی کی بات کرنے والی حکومتیں خود ہی اپنے شہریوں کو صحت مند ماحول کے حق سے محروم کر رہی ہیں۔
’جس سسٹم میں ہر کام محض خانہ پری کے لیےکیا جاتا ہو، وہاں توقع نہیں کی جا سکتی کہ گیس متاثرین کے لیے حکومتیں بہتر علاج کا انتظام کریں گی۔‘ بھوپال گیس سانحہ کے وقت کرشنا جگ تاپ محض 9 سال کی تھی۔ اس رات مچی بھگدڑمیں ایک […]