سر سید کے رفیق مولوی سید اقبال علی نے اپنے سفرنامہ پنجاب میں اس دورے کی تفصیلات لکھی ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ امرتسر میں یوروپی قومی تھیئٹر کے نام سے صاحبان و خانُمانِ افرنگ ایک ہال میں اپنا کھیل تماشا رچا رہے تھے جس پر ٹکٹ لگا تھا جس سے ہونے والی آمدن یورپیئن عوام کی بہبود کے لیے وقف تھی۔
سرسید کا ماننا تھا کہ جب مرد لائق ہوجاتے ہیں تب عورتیں بھی لائق ہوجاتی ہیں ۔جب تک مرد لائق نہ ہوں ، عورتیں بھی لائق نہیں ہوسکتیں ۔یہی سبب ہےکہ ہم کچھ عورتوں کی تعلیم کا خیال نہیں کرتے ہیں۔
سرسید نے انگلینڈ اور ہندستان میں سول سروس کے یکساں امتحان کی مخالفت کی، کیوں کہ ان کے نزدیک اگر ہندستان میں بھی یہ امتحان ہونے لگےگا تو اس میں (مزعومہ) رذیل برادریوں کے لوگ امتحان پاس کر کے کلکٹر اورکمشنر ہوسکتے ہیں۔
افتخار عالم خاں کی کتاب –سرسید کی لبرل ،سیکولراور سائنسی طرز فکر’سرسید شناسی کے بالکل نئے امکانات کو سامنے لاتی ہے اور عہد حاضر میں سرسید کی معنویت کے نئے ابواب رقم کرتی ہے۔
شمس بدایونی کی یہ کتاب سرسید فہمی کے تحقیقی تناظر کو خاطر نشاں کرتی ہے اور جدید طریقۂ تحقیق کے اصولوں یعنی مکمل حوالوں، کتابیات، اشاریوں اور عکسی نوادر کی شمولیت سے عبارت ہے جس کی پذیرائی ضروری ہے۔
سر سید کے دو صد سالہ جشن میں سابق صدر پرنب مکھرجی کو پوسٹر دکھا ےٴ۔ اور یہ اس وقت ہوا جب دہلی میں CBIکے ہیڈ کواٹر پر نجیب احمد کی ماں مختلف اداروں کے طلبہ-طالبات کے ساتھ احتجاج کر رہی ہیں ۔ علی گڑھ : علی گڑھ […]
1855میں”آئین اکبری”کی تدوین کرنے کے بعد غالب کے پاس تقریظ لکھوانے کے لیےگئے۔غالب نے اس ترجیح کو بے سود قرار دیتے ہوئےسر سید کو مشورہ دیا کہ زوال شدہ ماضی میں جھانکنےکے بجائےیہ دیکھا جائے کہ مغرب نےسائنسی علوم کے ذریعے مادی ترقی حاصل کر کے دنیا پر حکمرانی کر نا شروع کر دیا ہے۔ سر سید کو یہ بات پسند نہیں آئی۔
سر سید احمد خان کی200ویں سالگرہ کے موقع پر سینئر صحافی اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی سابق اسٹوڈنٹ عارفہ خانم شیروانی کے ساتھ دی وائر کی با ت چیت