یہ واقعہ 21 ستمبر کی رات دیر گئے بیدر ضلع کے بسواکلیان تعلقہ کے دھنور میں پیش آیا اور جمعہ کی صبح یہ منظر عام پر آیا۔ عہدیداروں نے بتایا کہ نامعلوم لوگوں نے مسجد کے اوپر بھگوا جھنڈا لہرا کر امن و امان کو بگاڑنےکی کوشش کی تھی۔ پولیس نے جھنڈا ہٹا دیا اور ایف آئی آر درج کر کے ملزمین کی تلاش کر رہی ہے۔
سیڈیشن کا معاملہ رد کرتے ہوئے کرناٹک ہائی کورٹ نے یہ بھی کہا کہ بچوں کو حکومت کی پالیسیوں کی تنقید کرنا نہ سکھائیں۔ معاملہ کرناٹک کے بیدر میں واقع شاہین اسکول سے متعلق ہے۔ سال 2020 میں یہاں طالبعلموں کی طرف سےسی اے اے اور این آر سی کے خلاف ڈرامہ اسٹیج کرنے پر تنازعہ ہوگیا تھا۔
کرناٹک کے بیدر میں ایک اسکول میں کھیلےگئےڈرامے کو لےکر درج ہوئی سیڈیشن کی ایف آئی آر رد کرانے کے لئے ایک ہیومن رائٹس کارکن کے ذریعے سپریم کورٹ میں دائر عرضی میں کہا گیا تھا کہ ایسے معاملوں میں ایف آئی آر درج کرنے سے پہلے شکایت کی جانچ کے لئے ایک کمیٹی بنائی جانی چاہیے۔
بیدر کی ضلع عدالت نے اسکول انتظامیہ کے پانچ لوگوں کو پیشگی ضمانت دیتے ہوئے کہا کہ یہ اسکولی بچوں کے ذریعے کھیلا گیا ڈرامہ سماج میں کسی بھی طرح کا تشدد یا بے یقینی کا ماحول پیدا نہیں کرتا اور پہلی نظر میں سیڈیشن کا معاملہ نہیں بنتا۔
کرناٹک اسٹیٹ کمیشن فار پروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس نے بیدر پولیس کو ایک خط لکھ کر کہا ہے کہ پولیس کی جانچ میں شاہین اسکول میں ڈر کا ماحول بنایا گیا اور پولیس کو فوراًاسکولی بچوں سے پوچھ تاچھ بند کر دینی چاہیے۔
پچھلے مہینے کرناٹک کے بیدر کے شاہین اسکول کے خلاف بچوں کے ذریعےسی اے اے مخالف ڈرامااسٹیج کرنے کے معاملے میں سیڈیشن کا معاملہ درج کیا گیاتھا۔ پہلے کی طرح ہی طال علموں سے ڈراما کس نے لکھا، کس نے تیاری کرائی اور ان کولائنیں کس نے رٹائیں جیسے سوال پوچھے گئے۔
ایک مقامی سماجی کارکن کی شکایت پر کرناٹک کے شاہین اسکول اور اس کی انتظامیہ کے خلاف معاملہ درج کیا گیا ہے۔ اسکول انتظامیہ نے پولیس پر طلبا، ان کے گارجین اور استاتذہ کے استحصال کاالزام لگایا ہے۔