سپریم کورٹ نے برجیش ٹھاکر کو نوٹس جاری کرکے پوچھا کہ کیوں نہ آزادانہ اور غیر جانبدارانہ جانچ کے لیے اس کو بہار سے باہر جیل میں ٹرانسفر کر دیا جائے ؟سی بی آئی نے اپنی اسٹیٹس رپورٹ میں کہا کہ جیل کے اندر بھی برجیش ٹھاکر کے پاس سے موبائل فون برآمد کیا گیا ہے۔
بہار کے مظفرپور کے شیلٹر ہوم میں بچیوں کے ساتھ جنسی استحصال کے واقعات سے متعلق معاملے کی سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا کہ اگر موجودہ نظام کافی ہوتا، تو مظفرپور میں جو بھی ہوا، وہ نہیں ہوتا۔
شمشان میں کھدائی کے بعد 5 انسانی ہڈیاں اب تک بر آمد ہو چکی ہیں۔ یہ کھدائی معاملے میں اہم ملزم برجیش ٹھاکر کے ڈرائیور کی نشاندہی پر کرائی جا رہی ہے۔
ذرائع کے مطابق باڑمیر کے صحافی درگ سنگھ راج پروہت کی گرفتاری کے معاملے پر بہار حکومت کے ذریعے بنائی گئی جانچ کمیٹی کی رپورٹ میں ایک اے ایس پی کے خلاف ڈسپلنری ایکشن کی سفارش کی گئی ہے۔
مظفرپور بالیکا گریہہ میں ہوئے جنسی استحصال کے معاملے کی میڈیا رپورٹنگ پر روک کے پٹنہ ہائی کورٹ کے حکم کو ایک مقامی صحافی نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے۔
منجو ورما جے ڈی یو کی لیڈر ہیں ،مظفر پور معاملے میں ان کے شوہر کا نام سامنے کے بعد انہیں سوشل ویلفیئر منسٹرکے عہدے سے استعفی ٰ دینا پڑا تھا۔
اتنے بڑے اسکینڈل کے باوجود’جنگل راج‘ کااستعمال کہیں نہیں کیا گیا۔ گذشتہ دو دہائیوں سے ایک روایت سی بن گئی تھی کہ جب بھی اتر پردیش یا بہار میں کوئی بڑا جرم یا لاقانونیت کا معاملہ سامنے آتا تھااخبارات اور ٹی وی فوراً اس کو جنگل راج سے تشبیہ دیتے تھے۔
وومین اینڈ چائلڈ ڈیولپمنٹ کی مرکزی وزیر نے کہا کہ پچھلے دو سالوں سے میں رکن پارلیامان سے التجا کر رہی ہوں کہ وہ اپنے علاقوں کے شیلٹر ہوم کا دورہ کریں۔ ہم نے این جی او سے شیلٹر ہوم کا آڈٹ کرایا، انہوں نے کچھ بھی غلط نہیں ہونے کی بات کہی۔
ایک جون سے 14 جون تک بہار کے محکمہ اطلاعات وعوامی رابطہ کی طرف سے اہم ملزم برجیش ٹھاکر کے اخبار ‘ پراتہہ کمل ‘ کے نام 14 اشتہار جاری کئے گئے۔ محکمہ اطلاعات وعوامی رابطہ کو خود وزیراعلیٰ نتیش کمار سنبھالتے ہیں۔
مظفر پور واقع ایک بالیکا گریہہ میں رہ رہیں لڑکیوں کے ریپ اور جنسی استحصال کے معاملے پر پہلی بار رد عمل دیتے ہوئے وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے مجرموں کو نہ بخشنے کی بات کہی۔
برجیش کی ملکیت والے ایک ہندی روزنامہ کی 300 سے زیادہ کاپیاں شائع نہیں ہوتی ہیں لیکن روزانہ 60862 کاپیاں چھپیں دکھاکر بہار حکومت سے ہر سال تقریباً 30 لاکھ روپے کے اشتہار لیے جاتے تھے۔
بہار کے مظفر پور بالیکا گریہہ ریپ کیس کو لے کر سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لیا ہے۔ ساتھ ہی سپریم کورٹ نے اس کیس کو لے کر مرکز اور بہار حکومت کو نوٹس جاری کر جواب مانگا ہے۔
برجیش کی ملکیت والے ایک ہندی روزنامہ کی 300 سے زیادہ کاپیاں شائع نہیں ہوتی ہیں لیکن روزانہ 60862 کاپیاں چھپیں دکھاکر بہار حکومت سے ہر سال تقریباً 30 لاکھ روپے کے اشتہار ملتے تھے۔ ملزم آئی پی آر ڈی سے منظور شدہ صحافی تھا۔
میڈیا بول کے اس ایپی سوڈ میں سنیے بہار میں مظفر پور کے ایک بالیکا گریہہ میں رہ رہیں لڑکیوں سے ریپ کے معاملے پر ہوئی میڈیا کوریج پر صحافی الکا رنجن اور سماجی کارکن ، صحافی شیتل پرساد سنگھ سے ارملیش کی بات چیت۔
خیر مظفرپور کا واقعہ تو اب حکومت اور انتظامیہ کی نظر میں ہے اور اس پر کارروائی بھی ہوتی دکھ رہی ہے، لیکن ٹی آئی ایس ایس کی جس رپورٹ پر یہ ساری معلومات سامنے آئی تھی اس میں 14 دوسرے بال گریہہ کے اوپر بھی انگلی اٹھائی گئی تھی۔
بہار کے مظفر پور میں واقع شیلٹر ہوم میں 29 بچیوں سے ریپ کے معاملے میں بہار حکومت نے سی بی آئی جانچ کے آرڈر دیے ہیں۔
بہار کی نتیش کمار حکومت اس معاملے میں خاموش رہی۔ وہیں بہار کا میڈیا اور مظفرپور کا شہری سماج بھی 29 بچیوں کے ساتھ ہوئے ریپ کے اس معاملے کو لےکر خاموش ہے۔
پی ایم سی ایچ نے مظفر پور کے شیلٹر ہوم کی 21 بچیوں کے ساتھ ریپ کی تصدیق کر دی ہے۔ یہاں رہنے والی بچیوں نے اپنی ایک ساتھی لڑکی کے قتل ہونے کا بھی الزام لگایا ہے۔
بہار پولیس ہیڈ کوارٹر کے اعداد و شمار کے مطابق، گزشتہ سال ریاست میں 18 سال سے کم عمر کے 6139 بچے لاپتہ ہوئے۔ جن میں سے 2546 کا آج تک کوئی سراغ نہیں مل پایا ہے۔
پولیس کے مطابق، مرنے والا سریندر ساہ مشرقی چمپارن ضلع کا رہنے والا تھا۔ اس کو 17 جون کو شراب پینے کی وجہ سے اس کے گاؤں سے گرفتار کرکے جیل میں ڈالا گیا تھا۔ وہ گرفتاری کے بعد سے ہی بیمار تھا۔
مسلم لڑکیاں آہستہ آہستہ سیدھے پولیس فورس میں بحال ہو رہی ہیں۔ ایسا ان لڑکیوں کے جذبے، مسلم سماج کے بدلتے نظریے کے ساتھ ساتھ بہار حکومت کی مدد سے ممکن ہو پا رہا ہے۔
ریاست کے ہوم سکریٹری عامر سبحانی نے ان الزامات سے انکار کیا کہ نئے ڈی جی پی کی بحالی بی جے پی کے دباؤ میں کی گئی ہے۔
بھاگل پور فساد ہندوستان کے سب سے بڑے اور مشہور فسادات میں سے ایک ہے۔ اس فساد میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 1100 سے زیادہ لوگ مارے گئے تھے۔
مجھے نہیں لگتا کہ نتیش کمار کی یہ منشا رہی ہوگی کہ ایک قانون لاتے ہیں اور پھر ایک لاکھ لوگوں کو جیل میں بند کراتے ہیں۔ اس سے تو ریاست کے وسائل پر بھی اثر پڑےگا اور عدالتوں میں کئی ضروری مقدمے زیر التوا ہوتے چلے جائیںگے۔ ایسا نہ ہو کہ ایک دن ووٹ کے لئے ان قیدیوں کو عام معافی کا اعلان کرنا پڑ جائے۔